امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اور سماجی سرگرمیاں
ایک طرف اسلامی معاشرے میں بے شمار مذہبی شبہات کا معرض وجود میں آنا اور دوسری طرف حکمرانوں کے درمیان سیاسی کشمکش کے باعث علمی اور سماجی سرگرمیوں کیلئے مناسب موقع میسر آنا اس بات کا باعث بنا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ایک عظیم علمی تحریک کا آغاز کر سکیں۔ فکری اور عقیدتی انحرافات کا مقابلہ کرنے کیلئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعض اہم اقدامات صحیح اعتقادی اصولوں کا بیان اور تشریح، مسلمانوں کی جانب سے دینی سوالات اور شبہات کا جواب دینا، اسلامی علوم کی کلاسیں منعقد کر کے عظیم دینی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانا، باصلاحیت افراد کو تعلیم دے کر انہیں دینی ماہرین میں تبدیل کرنا اور علمی مناظرے منعقد کرنے پر مشتمل ہیں
شیئرینگ :
امام محمد باقر علیہ السلام کی زندگی میں ہی بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان سیاسی کشمکش کا آغاز ہو چکا تھا۔ لہذا امام محمد باقر علیہ السلام اور ان کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دین مبین اسلام کا حقیقی چہرہ روشناس کروانے کیلئے علمی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ اس دوران تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ اور عقائد کے شعبوں میں اسلام کی حقیقی تعلیمات بیان کر کے آپ دونوں عظیم پیشواوں نے اسلامی معاشرے کو بے شمار گمراہیوں اور فکری انحرافات سے نجات دلائی۔ ان کاوشوں کے نتیجے میں صحیح اسلامی سوچ اور عقائد مسلمانوں تک پہنچے اور مسلمان محققین خاص طور پر مکتب تشیع کے ماہرین نے ان علوم کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس میں مزید وسعت ایجاد کی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے حوزہ علمیہ کی بنیاد ڈال کر دین مبین اسلام میں نئی روح پھونکی اور اسے ایک نئی زندگی عطا کی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ مختلف قسم کے عقائد اور مذہبی فرقے جنم لینے کا زمانہ تھا۔ یوں اسلامی معاشرہ شدید فکری انتشار کا شکار ہو چکا تھا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات خطرے میں پڑ چکی تھیں۔
اس زمانے میں اسلامی معاشرے میں قضا و قدر، جبر و تفویض، خداوند متعال کی ذات اور صفات کی معرفت، قیامت، ثواب اور عذاب جیسے موضوعات کے بارے میں بیشمار شبہات اور ابہامات پیدا ہو چکے تھے۔ انہی شبہات اور اختلافات کے نتیجے میں امت مسلمہ کثیر تعداد میں فرقوں میں بٹ چکی تھی جن میں خوارج، معتزلہ، متصوفہ، زنادقہ، جبریہ، اشاعرہ، مشبہہ، تناسخیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ایک طرف اسلامی معاشرے میں بے شمار مذہبی شبہات کا معرض وجود میں آنا اور دوسری طرف حکمرانوں کے درمیان سیاسی کشمکش کے باعث علمی اور سماجی سرگرمیوں کیلئے مناسب موقع میسر آنا اس بات کا باعث بنا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ایک عظیم علمی تحریک کا آغاز کر سکیں۔ فکری اور عقیدتی انحرافات کا مقابلہ کرنے کیلئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعض اہم اقدامات صحیح اعتقادی اصولوں کا بیان اور تشریح، مسلمانوں کی جانب سے دینی سوالات اور شبہات کا جواب دینا، اسلامی علوم کی کلاسیں منعقد کر کے عظیم دینی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانا، باصلاحیت افراد کو تعلیم دے کر انہیں دینی ماہرین میں تبدیل کرنا اور علمی مناظرے منعقد کرنے پر مشتمل ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے علمی مناظرے:
شیعہ حدیثی منابع میں ایسے کئی مناظرات بیان ہوئے ہیں جو امام جعفر صادق علیہ السلام نے مختلف مذاہب کے علماء اور حتی لادین اور ملحد افراد سے انجام دیے ہیں۔ ان میں بعض ایسے مناظرے بھی شامل ہیں جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں نے آپ کے حکم پر اور آپ کی زیر نگرانی انجام دیے ہیں۔ ایسے مناظرات میں امام جعفر صادق علیہ السلام خود موجود ہوتے تھے اور نظارت کے ساتھ ساتھ بعض اوقات خود بھی ان میں حصہ لیتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک بار شام سے ایک عالم دین مدینہ آیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مناظرے کا مطالبہ کیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگرد ہشام بن سالم کو اس سے مناظرے کا حکم دیا۔ اسی طرح ایک اور شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ وہ مناظرہ کرنا چاہتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم جس علمی موضوع کے بارے میں چاہو میرے شاگردوں سے مناظرہ کرو اور اگر تم نے انہیں شکست دے دی تو میں تم سے مناظرہ کرنے کیلئے حاضر ہوں۔ اس شخص نے قرآنی علوم میں حمران بن اعین، عرب لٹریچر کے بارے میں ابان بن تغلب، فقہ سے متعلق موضوعات میں زرارہ اور عقائد میں مومن طاق اور ہشام بن سالم سے مناظرے انجام دیے اور سب میں ہار گیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی اصل پالیسی ثقافتی امور پر مشتمل سرگرمیاں انجام دے کر ایسے باصلاحیت ماہرین کی تربیت کرنے پر مبنی تھی جنہوں نے مستقبل میں مکتب تشیع کی بنیادیں مضبوط بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سیاسی امور سے بھی لاتعلق نہ رہے اور سیاست کے میدان میں آپ علیہ السلام کی سرگرمیاں موجودہ حکومت سے اظہار ناراضگی، اس کے قانونی جواز کو قبول نہ کرنے اور امت مسلمہ کی امامت اور رہبریت خاندان اہلبیت اطہار علیہم السلام میں منحصر ہونے کے دعوے پر اصرار پر مشتمل تھیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ضروری مقدمات فراہم کئے بغیر موجودہ حکومت سے فوجی طاقت کے ذریعے ٹکر لینے کو مناسب نہیں جانتے تھے کیونکہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ ظاہر نہیں ہو سکتا تھا۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے زید بن علی اور ان کے بعد یحیی بن زید کی جانب سے حکومت کے خلاف مسلح سرگرمیوں کی اعلانیہ حمایت نہیں کی جبکہ دوسری طرف بنی عباس نے ان مسلح تحریکوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس بابصیرت اقدام کا نتیجہ بعد میں ظاہر ہوا جب فقہ جعفریہ پھل پھول کر ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر گئی۔