تین یورپی ملکوں یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی ایران کو میزائل ٹیکنالوجی اور روایتی ہتھیاروں کی برآمدات پر یورپی پابندی کی مدت میں دو ہزار تیئیس تک کی توسیع کریں گے اور وہ اس سلسلے میں روس، چین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر رکن ملکوں کے ساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں
شیئرینگ :
تین یورپی ملکوں یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی ایران کو میزائل ٹیکنالوجی اور روایتی ہتھیاروں کی برآمدات پر یورپی پابندی کی مدت میں دو ہزار تیئیس تک کی توسیع کریں گے اور وہ اس سلسلے میں روس، چین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر رکن ملکوں کے ساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔
مذکورہ تینوں یورپی ملکوں نے اپنے اس بیان میں اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے پر کاربند ہیں، یہ بھی کہا ہے کہ اس سمجھوتے کو بچانے کے لئے وہ اپنی کسی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے۔
تینوں یورپی ملکوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایک نمائشی اقدام کے تحت ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے لئے امریکی کوششوں پر اپنی مخالفت کا بھی اظہار کیا۔ یورپی یونین تھوڑے تھوڑے عرصے پر یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ کی خواہاں ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب سے امریکہ نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا ہے، یورپی ملکوں کی جانب سے عملی اور نمایاں طور پر اپنے معاہدوں اور وعدوں پر عمل کئے جانے کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔
دریں اثنا ایران کے خلاف ہتھیاروں سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندی کے خاتمے کا وقت قریب آنے پر، امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے اقوام متحدہ کی اس پابندی کی مدت میں توسیع کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
امریکہ آئندہ اٹھارہ اکتوبر کو ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی اسلحہ جاتی پابندی کے ختم ہونے سے جو ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی قرارداد بائیس اکتیس کا حصہ بھی ہے، سیخ پا ہے اور وہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی اس پابندی کی مدت میں توسیع کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ، آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے باضابطہ طور پر نکلنے اور غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کے نفاذ کے اعلان کے باوجود اس بات کا دعویدار ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے ایک فریق کی حیثیت سے اس قرارداد کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں میں تبدیلی کرانے کا حق رکھتا ہے، جبکہ قانونی طور پر وہ اپنا یہ حق کھو چکا ہے۔
حالانکہ امریکہ کے اس دعوے پر روس اور چین نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں چین کے نمائندہ دفتر نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکہ نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر کے قرارداد بائیس اکتیس کے ذیل میں اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے، اعلان کیا ہے کہ امریکہ کو ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کی مدت میں توسیع کرانے کا کوئی حق نہیں ہے، چہ جائیکہ اس سلسلے میں وہ کسی بہانے سے پابندیاں جاری رکھوانے کے لئے عملی طور پر کوئی قدم اٹھا سکے۔
روس کی وزارت خارجہ نے بھی زور دیا ہے کہ امریکہ، ایران کے خلاف ہتھیاروں سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی مدت میں توسیع کے لئے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کو استعمال کا کوئی حق نہیں رکھتا۔