امریکا میں نسل پرست سفید فام، فلسطین میں نسل پرست یہودی (صہیونی) اور بھارت میں ہندوتوا کے شدت پسند نظریات کے حامی ہندو پوری دنیا کے امن کیلئے ایک مستقل خطرہ ہیں۔ جن کو ہم کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے اور اس سلسلے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حقوق کی پاسداری کے لئے آواز بلند کی جائے
شیئرینگ :
تحریر: صابر ابو مریم
مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر براعظم ایشیاء میں دو ایسے اہم ترین مسائل ہیں، جن کے منصفانہ حل کے بغیر خطے سمیت عالمی امن کی ضمانت ناممکن ہے۔ مسئلہ فلسطین کی بات کریں تو برطانوی استعمار کی سیاسی چال بازیوں کا شاخسانہ ہی نظر آتا ہے اور اسی طرح اگر کشمیر کی بات کی جائے تو یہاں بھی اس مسئلہ کو ایجاد کرنے والی برطانوی حکومت ہی ہے۔ دور حاضر میں جب ایک طرف دنیا کو کورونا وائرس جیسی خطرناک وباء کا سامنا ہے تو ایسے حالات میں عالمی سامراج بشمول امریکہ اور اس کے حواری، غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل اور جنوبی ایشیاء میں ہندو شدت پسند مودی حکومت کورونا وائرس کی وباء کو نہ صرف فلسطین، کشمیر بلکہ دنیا کے دوسرے مماک میں جاری تشدد اور ظلم کی پالیسیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور اسرائیل فلسطین سمیت خطے کی عرب ریاستوں کا امن و امان برباد کئے ہوئے ہے۔
اسی طرح بھارت کشمیر میں معصوم اور نہتے کشمیری عوام کو کچلنے میں مصروف ہے۔ امریکہ براہ رات یمن، عراق، افغانستان، لیبیا اور لبنان سمیت دیگر مقامات پر انارکی پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے، جبکہ لاطینی امریکائی ممالک کے خلاف بھی امریکی ظالمانہ پالیسیوں پر صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ونیزویلا، کیوبا اور بولیویا جیسی ریاستیں امریکی ظالمانہ پالیسیوں کا شکار ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے اس مہلک وائرس کو وجہ بناتے ہوئے اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک بہترین موقع کے طور پر استعمال کیا ہے، لہذا ہمیں مظلوم انسانیت کے بنیادی مسائل کو فراموش نہ کرتے ہوئے ان سازشوں کو بے نقاب کرنا چاہیئے۔ ان مظالم کو بے نقاب کرنے کیلئے ہمیں مسئلہ فلسطین کو انسانی ہمدردی پر اجاگر کرنا چاہیئے، اسی طرح ہمیں مسئلہ کشمیر کو بھی اجاگر کرنا چاہیئے۔
امریکا میں نسل پرست سفید فام، فلسطین میں نسل پرست یہودی (صہیونی) اور بھارت میں ہندوتوا کے شدت پسند نظریات کے حامی ہندو پوری دنیا کے امن کیلئے ایک مستقل خطرہ ہیں۔ جن کو ہم کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے اور اس سلسلے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حقوق کی پاسداری کے لئے آواز بلند کی جائے، تاکہ دنیا کو باور کروایا جائے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ فلسطین پر صہیونیوں کا تسلط ناجائز ہے اور اسی طرح کشمیر میں ہندوستانی حکومت کا تسلط بھی ناجائز ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کورونا وائرس نے دنیا کے تمام مسائل اور مظالم پر حاوی ہوکر فلسطین، کشمیر، یمن، افغانستان، عراق، لیبیا اور ان جیسے دیگر اہم مسائل سے توجہ کو متاثر کیا ہے۔ کورونا وائرس سے متعلق کسی قسم کی سازشی تھیوری پر یقین نہیں کرتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وبائی امراض نے ہر چیز کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔
دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر قیادت امریکی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے، جبکہ صہیونی غیر قانونی ریاست نے مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ اور مغربی کنارے کے بعض حصوں کو چھوڑ کر پورے فلسطین پر اپنا قبضہ مضبوط کر لیا ہے۔ ہمارا قبلہ اول بھی صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے، مسئلہ فلسطین پر ہماری فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے القدس پر صہیونی ریاست کے قبضے کو ناجائز تسلیم کیا ہے، لیکن امریکہ صہیونی ریاست کی خوشنودی کے حصول کیلئے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے اور یہی صورتحال کشمیر کی بھی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت عالمی برادری نے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے، لیکن بھارت نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ لہذا موجودہ فلسطینی اور کشمیری صورتحال ہم سب کیلئے باعث تشویش ہے اور بھارت اور اسرائیل کے غیر قانونی دعووں کو عرب اور مسلم دنیا نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں فلسطینیوں کے حقوق کے لئے سرگرم عمل این جی او فلسطین فائونڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ آن لائن ویبنار میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی اہم شخصیات نے فلسطین، کشمیر اور یمن سمیت عالم اسلام و انسانیت کے اہم ترین مسائل پر اظہار خیال کیا ہے۔ اسی عنوان سے پاکستان کی معروف سیاسی شخصیت سینیٹر مشاہد حسین سید نے فلسطین و کشمیر سے متعلق موجودہ صورتحال پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام سے جڑا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں انصاف اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت انسانی حقوق کے مسائل اور حق خود ارادیت سے بھی جڑا ہوا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بابائے قوم کا موقف بالکل واضح تھا، قائداعظم نے کہا تھا کہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے ایک مشترکہ محاذ بنانا چاہیئے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیئے، تاکہ اس کے حل کیلئے کوششیں تیز کی جاسکیں۔
یہ پیغام ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا مظلوم فلسطینیوں اور اور کشمیریوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ پاکستان کے قیام سے قبل 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے دو قراردادوں کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا، جس میں سے ایک تو پاکستان کے قیام کیلئے تھی جبکہ دوسری فلسطینوں کی حق خود ارادیت کیلئے تھی۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا فلسطینیوں کے ساتھ کتنا گہرا رشتہ ہے۔ اس سے قبل بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938ء میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پہلی مرتبہ یوم یکجہتی فلسطین اور فلسطین فنڈ کا آغاز کیا تھا، یہ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کی فلسطین کے ساتھ طویل اور دیرینہ وابستگی ہے۔ جب ہم کشمیر اور فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں دو چیزیں دونوں میں مشترک ہیں، کشمیر میں بھارتی وزیراعظم مودی کا ہندوتوا کے نام پر نظریاتی ایجنڈا ہے، جس کو وہ کشمیریوں پر لاگو کرکے مظالم ڈھارہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو صہیونیت کے نظریاتی ایجنڈے پر نہتے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور یہ دونوں ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔
فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر خالد قدومی کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں امریکا کی جانب سے تمام تنازعات کو اپنے مفاد میں کرنے کیلئے لاگو کرنے والے نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف متحد ہوکر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے ورلڈ آرڈر کے نتائج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح امریکی انتظامیہ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کر رہی ہے اور ان کے حقوق سے محروم کر رہی ہے، یہ بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے، جیسا کہ صہیونی ریاست مقبوضہ فلسطین میں کر رہی ہے۔ میں کہوں گا کہ اسرائیلی آرمی مقبوضہ فلسطین میں مقامی طور پر استحصال نہیں کر رہی ہے بلکہ وہ بین الاقوامی قوانین کی بھی بدترین خلاف ورزی کر رہی ہے۔ امریکی صدر تنازعات کی جڑ ہے، جس نے اپنے اقتدار میں آتے ہی کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا کوئی دو ریاستی حل نہیں ہے، اس کا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے ایک یہودی ریاست جو اسرائیل کے نام سے جانی جاتی ہے، اس شیطانی موقف کے بعد امریکی صدر نے صدی کی ڈیل نے نام سے مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے ایک نام نہاد امن منصوبہ پیش کیا، جس میں یکطرفہ طور پر فیصلے کئے گئے اور غرب اردن کے 30 فیصد علاقے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
لبنان میں اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ سید ابراہیم موسوی فلسطین و کشمیر کی صورتحال پر کہتے ہیں کہ امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کشمیریوں پر بھارتی اور فلسطینیوں پر صہیونی مظالم صرف کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ حق اور باطل کی جنگ ہے۔ صیہونی مظالم کے باوجود حزب اللہ فلسطین کی آزادی کے بہت نزدیک ہے۔ امریکی اور صہیونی ریاست کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے شہر غزہ کا غیر قانونی محاصرہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ شام، لبنان، یمن، ایران اور تمام ممالک کے خلاف ہے، جو آزادی سے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ امریکی اور صہیونی ریاست پوری دنیا کے آزاد ممالک کو اپنا محکوم بنانا چاہتے ہیں۔
دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ اسرائیل عرب دنیا اور اس خطے میں ایک کینسر کی مانند ہے، جس کو ختم ہونا ہے، کسی بھی قوم کے اوپر ہمیشہ حکومت نہیں کی جاسکتی ہے۔ مسلم امہ کو رنگ و نسل اور عقائد سے بالا دست ہوکر کشمیر، فلسطین، لبنان، شام، عراق اور یمن سمیت تمام مظلوم مسلم ممالک کے حق کیلئے متحد ہونا ہوگا اور یہی ایک واحد راستہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج دنیا بھر سے فلسطین و کشمیر کے لئے آواز بلند کی جا رہی ہے، لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان آوازوں کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی حکومتیں اور حکمران سامنے آئیں، فلسطین و کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات انجام دیں اور یہ عملی اقدامات یقیناً مسلم دنیا کے آپس کے اتحاد سے ہی ممکن ہیں۔