’’ انسان کی زندگی اپنی بہادری کے مطابق پھیلتی یا سکڑتی ہے۔‘‘
(فرانسیسی ادیبہ،انا ییزبین)
آج سے ٹھیک پچپن سال قبل 6 ستمبر 1965ء کو مغرور و متکبر بھارتی حکمران طبقے نے تمام تر عسکری طاقت و طمطراق سے ارض پاک پر حملہ کیا تھا ۔ وہ افواج پاکستان کو تر نوالہ سمجھے ہوئے تھا۔ مگر پاسبان وطن نے پاکستانی قوم کے تعاون سے دشمن کو ایسی شکست فاش دی کہ اس کے غرور کا سارا نشہ ہرن ہوگیا۔
اس سترہ روزہ جنگ میں افواج پاکستان کے جوانوں نے کئی محاذوں پر داد شجاعت دی اور دلیری و بہادری کی تاریخ میں نئے باب رقم کیے۔ ایک یادگار باب چونڈہ کے محاذ پر بھی لکھا گیا۔ اس کا تذکرہ آج بھی ہر پاکستانی کے تن بدن میں جذبہ حب الوطنی کا جوش و ولولہ دوڑا دیتا ہے۔ تب صرف ایک ٹینک رجمنٹ کے جیالوں نے اپنے سے دوگنے طاقتور حریف کا راستہ روک کر حملے کا رخ ہی بدل ڈالا۔ دشمن ارض پاک کے بہادر جوانوں سے ایسا خوفزدہ ہوا کہ دبک کر چوہے کی طرح بل میں جاچھپا۔ اس معرکے کی داستان ڈرامائی ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی غلط فہمیوں سے بھی عبارت ہے جن کی بابت پڑھ کر آج ہونٹوں پہ مسکراہٹ آجاتی ہے۔
جنگ ستمبر 1965ء دراصل جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کرانے کی ایک بھرپور کوشش تھی جسے پاکستانی حکمرانوں نے اپنے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق انجام دیا۔ مسلمانان کشمیر پچھلے دو برس سے غیر مسلم حکمرانوں کے ظلم و تشدد کا شکار ہیں۔ ان کے خون کے آنسو رلا دینے والے بدترین حالات دیکھ کر ہی اہل پنجاب نے 1947ء سے قبل کشمیریوں کو ظالم ڈوگروں سے نجات دلانے کی خاطر زبردست تحریک چلائی تھی۔اس کے بعد اہل پاکستان اسلامی یک جہتی اور بھائی چارے کے سدا بہارجذبات لیے کشمیریوں کو آزادی دلانے اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن، بھارت سے بھڑگئے۔
اگست 1965ء سے آزادیِ کشمیر کے لیے افواج پاکستان نے مقبوضہ وادی میں عسکری آپریشن شروع کیے۔ انہوں نے جلد چھمب و جوڑیاں کے قصبے فتح کیے اور اکھنور شہر کی سمت بڑھے۔ بھارتی حکمرانوں کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہیں جموں و کشمیر ہاتھ سے جاتا نظر آیا تو وادی میں پاک افواج کے حملوں کا زور کم کرنے کی خاطر انہوں نے پاکستان پر حملہ کردیا۔چھ ستمبر کی صبح پاکستانی پنجاب کے دو مقامات پر حملے کا آغاز ہوا۔
ایک حملہ لاہور دوسرا پسرورو سیالکوٹ پر ہوا۔ دونوں مقامات پر بھارتی فوج کی نفری پاک فوج کی نسبت کم از کم ڈھائی گنا زیادہ تھی۔ لیکن دونوں محاذوں پر افواج پاکستان کے جوانوں نے ایسی داد شجاعت دکھائی کہ طاقتور دشمن بوکھلا کر رہ گیا۔ لاہور کے محاذ جنگ کی داستانیں کئی کتب میں محفوظ ہیں، آج ہم سیالکوٹ محاذ پر رقم ہوئی ایک داستان سناتے ہیں۔ یہ داستان عیاں کرتی ہے کہ مادر وطن کے دفاع پر کمربستہ افواج پاکستان کے جوان اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے اور ہمہ وقت اسے قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
(فرانسیسی ادیبہ،انا ییزبین)
آج سے ٹھیک پچپن سال قبل 6 ستمبر 1965ء کو مغرور و متکبر بھارتی حکمران طبقے نے تمام تر عسکری طاقت و طمطراق سے ارض پاک پر حملہ کیا تھا ۔ وہ افواج پاکستان کو تر نوالہ سمجھے ہوئے تھا۔ مگر پاسبان وطن نے پاکستانی قوم کے تعاون سے دشمن کو ایسی شکست فاش دی کہ اس کے غرور کا سارا نشہ ہرن ہوگیا۔
اس سترہ روزہ جنگ میں افواج پاکستان کے جوانوں نے کئی محاذوں پر داد شجاعت دی اور دلیری و بہادری کی تاریخ میں نئے باب رقم کیے۔ ایک یادگار باب چونڈہ کے محاذ پر بھی لکھا گیا۔ اس کا تذکرہ آج بھی ہر پاکستانی کے تن بدن میں جذبہ حب الوطنی کا جوش و ولولہ دوڑا دیتا ہے۔ تب صرف ایک ٹینک رجمنٹ کے جیالوں نے اپنے سے دوگنے طاقتور حریف کا راستہ روک کر حملے کا رخ ہی بدل ڈالا۔ دشمن ارض پاک کے بہادر جوانوں سے ایسا خوفزدہ ہوا کہ دبک کر چوہے کی طرح بل میں جاچھپا۔ اس معرکے کی داستان ڈرامائی ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی غلط فہمیوں سے بھی عبارت ہے جن کی بابت پڑھ کر آج ہونٹوں پہ مسکراہٹ آجاتی ہے۔
جنگ ستمبر 1965ء دراصل جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کرانے کی ایک بھرپور کوشش تھی جسے پاکستانی حکمرانوں نے اپنے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق انجام دیا۔ مسلمانان کشمیر پچھلے دو برس سے غیر مسلم حکمرانوں کے ظلم و تشدد کا شکار ہیں۔ ان کے خون کے آنسو رلا دینے والے بدترین حالات دیکھ کر ہی اہل پنجاب نے 1947ء سے قبل کشمیریوں کو ظالم ڈوگروں سے نجات دلانے کی خاطر زبردست تحریک چلائی تھی۔اس کے بعد اہل پاکستان اسلامی یک جہتی اور بھائی چارے کے سدا بہارجذبات لیے کشمیریوں کو آزادی دلانے اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن، بھارت سے بھڑگئے۔
اگست 1965ء سے آزادیِ کشمیر کے لیے افواج پاکستان نے مقبوضہ وادی میں عسکری آپریشن شروع کیے۔ انہوں نے جلد چھمب و جوڑیاں کے قصبے فتح کیے اور اکھنور شہر کی سمت بڑھے۔ بھارتی حکمرانوں کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہیں جموں و کشمیر ہاتھ سے جاتا نظر آیا تو وادی میں پاک افواج کے حملوں کا زور کم کرنے کی خاطر انہوں نے پاکستان پر حملہ کردیا۔چھ ستمبر کی صبح پاکستانی پنجاب کے دو مقامات پر حملے کا آغاز ہوا۔
ایک حملہ لاہور دوسرا پسرورو سیالکوٹ پر ہوا۔ دونوں مقامات پر بھارتی فوج کی نفری پاک فوج کی نسبت کم از کم ڈھائی گنا زیادہ تھی۔ لیکن دونوں محاذوں پر افواج پاکستان کے جوانوں نے ایسی داد شجاعت دکھائی کہ طاقتور دشمن بوکھلا کر رہ گیا۔ لاہور کے محاذ جنگ کی داستانیں کئی کتب میں محفوظ ہیں، آج ہم سیالکوٹ محاذ پر رقم ہوئی ایک داستان سناتے ہیں۔ یہ داستان عیاں کرتی ہے کہ مادر وطن کے دفاع پر کمربستہ افواج پاکستان کے جوان اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے اور ہمہ وقت اسے قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔