امریکہ کا اصلی ہدف افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے۔
بائیڈن کے دور حکومت میں افغانستان کی صورتحال امریکہ کے سابق صدر باراک اوبامہ کے دور کے مشابہ رہے گی ۔افغان تجزيہ نگار
شیئرینگ :
افغان ماہرین کے مطابق ابھی تک امریکی انتخابات کے حتمی اور سرکاری نتائج کا اعلان نہیں ہوا ہے اور وائٹ ہاؤس میں کس کو راستہ ملےگا ابھی تک واضح نہیں ہے۔
افغان قومی رفاہ پارٹی کے سکریٹری محمد حسین جعفری نے امریکہ اور طالبان کے درمیان صلح کے سلسلے میں مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممکن ہے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات منسوخ ہوجائیں اور افغانستان کی مذاکراتی ٹیم واپس کابل پہنچ جائے۔ محمد حسین جعفری نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ممکن ہے جاری رہے لیکن اس میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
صدائے افغان خبررساں ایجنسی کے سربراہ سید عیسی حسینی مزاری نے کہا ہے کہ امریکہ کے سابق صدر اوبامہ طالبان کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے تھے اور وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار نہیں تھے اور کہتے تھے کہ افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں ۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے حالات بہت پیچيدہ ہیں اور افغانستان کے حالات کے پیچھے غیرعلاقائی طاقتوں کے ہاتھ نمایاں ہیں۔
سید عیسی حسینی مزاری کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان میں صلح کے ذریعہ انتخاباتی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور نیز وہ طالبان کو امریکہ کے دشمنوں کے کیمپ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور ٹرمپ کی شکست کی صورت میں صلح کا مصرف ختم ہوجائےگا۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ کا اصلی ہدف افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے اور وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پرورش کا سلسلہ جاری رکھےگا اور افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی باقی رہےگی۔
افغانستان میں نیٹو کے سابق مشیر محمد شفیق ہمدم نے افغانستان میں صلح کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ افغانستان میں جنگ بتدریج ختم ہورہی ہے اور اس جنگ کو ہر صورت میں ختم ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں جو بائیڈن بھی مصمم نظر آتے ہیں لیکن اس کے متعلق جوبائیڈن کے طریقہ کار اور ٹرمپ کے طریقہ کار میں نمایاں فرق ہوگا۔
اس نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ امریکہ کے لئے خطے کے حالات بھی مہم ہیں اور علاقائي صورتحال کے بارے میں ٹرمپ اور جو بائیڈن کے نظریات میں بڑا فرق ہے۔ اس نے کہا کہ بائیڈن کی مشرق وسطی کے حالات ، جنوبی ایشیا اورمرکزی ایشیا کے حالات پر بھی قریبی نظر رہےگی ۔
ہرات میں افغانستان ریسرچ سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر داؤد عرفان نے مہر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے خیال میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات نئی روش کے ساتھ جاری رہیں گے اور اس سلسلے میں ٹرمپ کے دور کے امتیازات میں رد و بدل اور تبدیلی ہوسکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان کے عوام ملک میں امن و صلح کے خواہاں ہیں اور صلح کے نتیجے میں افغانستان ترقی اور پیشرفت حاصل کرسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قدرت اور ثروت کی تقسیم اور تنازعات کو دور کرنے کے سلسلے میں مذاکرات میں شامل گروہوں کو کسی جامع معاہدے تک پہنچنا چاہیے اور افغانستان میں امن و صلح کی کوششوں کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے۔