امریکا افغانستان سے نکلنے کے لیے انتا بے چین کیوں؟
امریکی حکومت جنگ سے تباہ حال افغانستان سے فوجی انخلا پر نظرثانی کر رہی ہے اور اسی ضمن میں ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے یہ منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ مجوزہ منصوبے میں ملک میں جاری کشیدگی میں مرحلہ وار کمی اور پھر مکمل جنگ بندی کا ہدف رکھا گیا ہے
شیئرینگ :
تحریر: زاہد حسین
بائیڈن انتظامیہ نے افغان امن عمل میں آنے والے ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک مشترکہ عبوری ’امن حکومت‘ کے قیام کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ افغان امن عمل کی حمایت کے حوالے سے ایک مشترکہ اور جامع پالیسی اپنائیں۔
امریکی حکومت جنگ سے تباہ حال افغانستان سے فوجی انخلا پر نظرثانی کر رہی ہے اور اسی ضمن میں ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے یہ منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ مجوزہ منصوبے میں ملک میں جاری کشیدگی میں مرحلہ وار کمی اور پھر مکمل جنگ بندی کا ہدف رکھا گیا ہے۔
اگرچہ امریکا کی جانب سے افغان پالیسی پر نظرثانی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ امریکا کو اب افغانستان سے نکلنے کی جلدی ہے۔ تاہم حالات کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کے لیے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوگا۔
بین الافغان مذاکرات میں آنے والا تعطل اور ملک میں بڑھتی ہوئی گشیدگی پر امریکا میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ اس بے چینی کا اظہار امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی جانب سے افغان صدر اشرف غنی کو لکھے جانے والے خط میں بھی ہوا۔
اس خط میں بلنکن نے سخت الفاظ میں اشرف غنی پر زور ڈالا کہ وہ امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے دیگر افغان رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے اشرف غنی کو دوحہ مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے کے خطرے اور حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا۔
ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ افغان صدر ہنگامی حالات میں ملک کو قیادت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور طالبان کے حملے بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
خط میں اختیار کی گئی سختی اس بات کا مظہر ہے کہ امریکا مذاکرات میں آنے والے تعطل کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ بین الافغان مذکرات میں ایک بڑی رکاوٹ خود اشرف غنی کی کرختگی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا کے نزدیک اشرف غنی کا سخت مزاج ایک مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ امن عمل کو تیز کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے لیکن اشرف غنی کسی صورت بھی مشترکہ عبوری حکومت کی تجویز ماننے کو تیار نہیں ہیں اور یہی نکتہ تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے۔
اس خط کے بعد امریکا کی جانب سے 8 صفحات پر مبنی ایک دستاویز بھی جاری ہوا جسے طالبان کو بھی فراہم کیا گیا تھا۔ اس امن منصوبے میں ایک قومی حکومت کے قیام کی بات کی گئی ہے جس کے متوازی کوئی دوسری حکومت یا سیکیورٹی فورس نہیں ہوگی۔ اس منصوبے میں اسلامی اقدار کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ایک آزاد عدلیہ کو حتمی اختیارات حاصل ہوں گے جبکہ اسلامی فقہ کی کونسل مشاورتی کردار ادا کرے گی۔ مجوزہ منصوبے میں خواتین اور مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے امریکا نے ترکی سے درخواست کی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام افغان حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں اور طالبان رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی میزبانی کرے۔
اب تک افغان حکومت یا افغان طالبان کی جانب سے امریکا کے امن منصوبے پر کوئی باضابطہ ردِعمل نہیں آیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی اعلیٰ کونسل اس منصوبے پر غور کر رہی ہے۔ ان مذاکرات میں اقوامِ متحدہ کی مداخلت اس عمل کو تیز کرنے میں ضرور مدد کرے گی۔
تاہم ان مذاکرات میں کوئی کامیابی حاصل کرنا مشکل ثابت ہوگا۔ عبوری حکومت کے معاملے پر افغان حکومت اور طالبان دونوں کی جانب سے ہی مزاحمت کی جارہی ہے۔ اشرف غنی تو پہلے ہی عبوری حکومت کی مخالفت کرچکے ہیں اور امکان یہ ہے کہ طالبان بھی آئینی فریم ورک پر کسی معاہدے کے بغیر عبوری حکومت پر رضامند نہیں ہوں گے۔ امن منصوبے میں مذاکرات کے دوران مکمل جنگ بندی کی بات کی گئی ہے لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ شورش پسند اس پر رضامند ہوں گے۔
افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کی ڈیڈ لائن یکم مئی ہے اور اس تاریخ تک امن منصوبے کا نفاذ بائیڈن انتظامیہ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
طالبان کے ساتھ ہونے والے تاریخی امن معاہدے کو ایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے جس نے 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید پیدا کی تھی۔
گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کم ہوتے ہوتے 2500 تک آگئی ہے۔ مکمل فوجی انخلا کا دار و مدار بین الافغان مذاکرات اور مستقبل کے سیاسی نظام پر ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال ستمبر میں دوحہ میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن گزشتہ 6 ماہ میں یہ دونوں فریق ان مذاکرات کے فریم ورک پر بھی متفق نہیں ہوسکے ہیں۔
طرفین اپنے اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے معاملات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ اسی دوران طالبان کی جانب سے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں اضافے کی کوشش بھی کی گئی ہے جس سے ملک میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ملک میں سول سوسائٹی کے افراد، صحافیوں اور دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد کہیں ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار نہ ہوجائے۔
دریں اثنا، امریکا نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اقوامِ متحدہ روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت اور امریکا کے وزرائے خارجہ اور سفرا کا اجلاس طلب کرے۔ ان تمام ممالک کے مفادات بھی افغان امن عمل سے وابستہ ہیں اور اس حوالے ان ممالک کی ایک مشترکہ پالیسی مستقبل کے کسی سیاسی تصفیے کے لیے بہت ضروری ہے۔
افغانستان کے اسٹریٹجک محل وقوع کی وجہ سے یہ ملک ہمیشہ سے ہی بیرونی طاقتوں اور پراکسی جنگوں کا ہدف رہا ہے۔ اس جنگ کے اندرونی پہلو کی طرح بیرونی پہلو بھی اہم ہے۔ پڑوسی ممالک کی جانب کی جانے والی مداخلت مکمل امن کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
یہ ملک ایک عرصے سے خطے میں موجود آپسی دشمنیوں کا مرکز رہا ہے۔ پراکسی جنگوں نے ملک کے استحکام اور ریاست کے قیام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ملک خطے اور بین الاقوامی طاقتوں کے لیے جنگ کا میدان بنا رہا۔ سب سے زیادہ نتیجہ خیز ٹکراؤ پاکستان اور بھارت کے مابین ہے اور افغانستان اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔
یہ تینوں ممالک عدم اعتماد اور مسابقت کے مہلک مثلث میں پھنس گئے ہیں۔ علاقائی طاقتوں کے مابین ایک ایسا معاہدہ جو افغانستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی ضمانت دیتا ہو، جنگ زدہ ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان پر بھی دباؤ ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین سے طالبان کے مراکز اور افراد کو ہٹائے۔ یہ واقعی پاکستان کے لیے ایک مشکل وقت ہوگا۔ مجوزہ امن منصوبے سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ امریکا امن عمل کو تیز تر کرنا چاہتا ہے۔ تاہم، امن کے حصول کا راستہ بے حد کٹھن ہے۔