محسوس ہوا جیسے ساری پریشانیاں اس لفافے میں بند کردی ہوں۔ دل ہلکا اور مطمئن ہوگیا جیسے عریضہ ضریح تک پہنچنے سے پہلے مولا ابو الفضل العباس علیہ السلام کی بارگاہ پہنچ گیا
شیئرینگ :
تحریر :#نوردرویش
بشکریہ:شیعیت نیوز
دو سال پہلے کی بات ہے مجھے خبر ملی ایک قریبی عزیز جو ایک عالم دین ہیں، عراق کیلئے روانہ ہورہے ہیں۔ فوراً خیال آیا کہ ایک عریضہ لکھ دیتا ہوں جس میں اپنے مسائل، پریشانیاں، حاجات اور کچھ دل کی باتیں لکھ دوں گا۔
زیارت کیلئے عراق کا سفر کرنے والے اکثر زائرین سے میں نے اکثر ایک سوال ضرور پوچھا ہے کہ حاجات طلب کرنے اور توسل کرنے کا سب سے منفرد احساس کہاں ہوا۔ تقریبا ًسب کا ایک ہی جواب ملا:
بارگاہ ‘ابو الفضل العباس علیہ السلام”
یہ بتاتے ہوئے میں نے سب کی آنکھوں میں چمک دیکھی اور سب کے لہجے میں ایک فخر محسوس کیا۔
میں نے بھی عریضہ مولا ابو الفضل العباس علیہ السلام کے نام لکھا۔ پاس کھڑی بیٹی نے میری زوجہ سے پوچھا کہ "پاپا کیا لکھ رہے ہیں؟”۔ بیوی نے جواب دیا کہ "آقا مولا ع کو لیٹر لکھ رہے ہیں”۔ اس نے تو اپنی دانست میں معصوم سوال کا معصوم جواب دے دیا لیکن میرا دل کچھ لمحوں کیلئے اس جملے کے سرور میں کھو گیا۔ یعنی میں گنہگار آقا مولا کو خط لکھ رہا ہوں؟ کچھ ایسا احساس تھا جیسا "کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء” پڑھتے ہوئے ہوتا ہے۔
۔
عریضے میں کچھ گزارشات لکھیں، لفافے میں بند کیا، باہر اپنا نام بالکل ویسے لکھا جیسے خط کے لفافے پر لکھا جاتا ہے اور عریضہ اپنے عزیز کے حوالے کردیا۔ محسوس ہوا جیسے ساری پریشانیاں اس لفافے میں بند کردی ہوں۔ دل ہلکا اور مطمئن ہوگیا جیسے عریضہ ضریح تک پہنچنے سے پہلے مولا ابو الفضل العباس علیہ السلام کی بارگاہ پہنچ گیا۔ بالکل اس شعر کی طرح:
"میں تو پرچم کو سناتا ہوں مصیبت اپنی
کون عباس ع کو نہ جانے خبر کرتا ہے”
عریضہ لکھنے کے بعد میں نے خود پر غور کیا تو خود کو بھی انہی لوگوں کی طرح فخر کرتا محسوس کیا جن سے میں توسل سے متعلق سوال پوچھا کرتا تھا۔ بے شک نام عباس ع وسیلہ ہے ہر دعا کیلئے۔
ہر برس جناب عباس علیہ السلام کے مصائب سن کر جن عزاداروں کی آس ٹوٹ جاتی ہے کہ اب عباس ع بھی نہیں رہے، پھر مولا عباس ع پورا سال انکی آس ٹوٹنے نہیں دیتے۔ پھر چاہے وہ علم کے پھریرے کو چوم کر بندھے، ضریح عباس علیہ السلام کو چھو کر بندھے، آقا مولا کے نام عریضہ لکھ کر بندھے اور یا بس آنکھیں بند کرکے سخت پریشانی میں دل ہی دل میں انہیں مخاطب کرکے یہ کہتے ہوئے بندھے:
"یا کاشف الکرب عن وجہہ الحسین، اکشف کربی بحق اخیک الحسین علیہ السلام”
اے حسین علیہ السلام کے چہرے سے پریشانی دور کرنے والے، میری پریشانی کو اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے صدقے دور فرما۔
۔