صدر علوی کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ قرارداد کی منظوری کے بعد ہی کیا جائے گا۔ تاہم اُن کے بقول وزیرِ اعظم عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ سفیر کو نکالنے سے پاکستان کو معاشی نقصان ہو گا۔
شیئرینگ :
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے ردعمل میں فرانس کے ساتھ تعلقات اور سفیر کی ملک بدری سے متعلق قرارداد پر پارلیمان کی سفارش کے بعد ہی حکومت کوئی حتمی فیصلہ کرے گی۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں صدر علوی نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے وفاقی حکومت کا استحقاق ہے تاہم پارلیمنٹ اپنی سفارشات سامنے لا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری ملک ہونے کی حیثیت سے فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی تاکہ عوام کے جذبات کی عکاسی ہو سکے اور پارلیمان ہی وہ فورم ہے جہاں عوام کی خواہشات کا صحیح اظہار ہو سکتا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا پارلیمنٹ سے قرارداد کی منظوری کے بعد حکومت فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دے گی؟ صدر علوی کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ قرارداد کی منظوری کے بعد ہی کیا جائے گا۔ تاہم اُن کے بقول وزیرِ اعظم عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ سفیر کو نکالنے سے پاکستان کو معاشی نقصان ہو گا۔
خیال رہے کہ کالعدم تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق ایک قرارداد پیش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مذہبی طبقے کا پرتشدد احتجاج بعض یورپی ممالک کے اسلام کے حوالے سے اقدامات کا نتیجہ ہے جس نے ایسے وقت میں تہذیبوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے جب دنیا کو امن کی ضرورت ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ "مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آزادیٔ اظہارِ رائے کی آڑ میں ایسی بات کروں جو کسی کو تکلیف پہنچائے۔"
اُن کے بقول یورپ میں ہولوکاسٹ سے متعلق بات کرنا قانونی طور پر جرم قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیغمبرِ اسلام کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے۔
'اٹھارویں ترمیم پر عمران خان کے اعتراضات جائز ہیں'
ڈاکٹر عارف علوی کہتے ہیں کہ 18 ویں آئینی ترمیم پر وزیرِ اعظم عمران خان کے اعتراضات جائز ہیں کہ وسائل کے اعتبار سے وفاق کا حصہ بڑھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق نے اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں رکھا ہے جس پر بات ہوتی رہتی ہے۔ اُن کے بقول جس طرح آئین میں بہتری کے لیے آئین میں ترمیم لائی جا سکتی ہے اسی طرح اٹھارویں ترمیم میں بہتری کے لیے اس میں بھی ترامیم لائی جا سکتی ہیں۔
صدر علوی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم مجموعی طور پر ایک مناسب آئینی ترمیم تھی جس میں 58 ٹو بی کی صدارتی تلوار ہٹائی گئی اور قومی وسائل پر صوبوں کو بہت سے اختیارات دیے گئے۔
'آرٹیکل 370 کے خاتمے تک بھارت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے'
صدر نے کہا کہ بھارت کے ساتھ سرحد پر جنگ بندی کے معاہدے کی توثیق کا پاکستان کی کشمیر پالیسی سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔
ان کے بقول جنگ بندی معاہدہ خوش آئند ہے اور یہ کہنا کہ اس عمل سے مسئلۂ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کمزور ہو گا غیر مناسب بات ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کشمیر پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور پاکستان اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے تک بھارت سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کے انضمام سے جنوبی ایشیا کے دو جوہری ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ رہنے کے بعد فروری میں پاکستان اور بھارت نے سرحدوں پر فائر بندی کے معاہدے کی توثیق کی تھی۔
'افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا خوش آئند'
صدر عارف علوی نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے پروگرام کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ امن کی جانب بہتر قدم ثابت ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستان تحریکِ انصاف نائن الیون کے بعد سے یہ کہتی رہی ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جو مؤقف پاکستان کا تھا آج دنیا کے دیگر ممالک بھی اپنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امن کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے بھی دنیا کی طاقتیں اور ہمسایہ ممالک مل کر کام کریں۔
عارف علوی کہتے ہیں کہ پاکستان کا افغانستان کے استحکام اور تعمیرِ نو میں کلیدی کردار ہو گا جب کہ تعلیم، صحت اور تعمیرات میں اسلام آباد، کابل کی بھرپور معاونت کرے گا۔
'بھارت کے افغانستان میں عزائم پر تحفظات سے دنیا کو آگاہ کر چکے'
افغانستان میں بھارت کے کردار پر پاکستان کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے عارف علوی نے کہا کہ اسلام آباد دنیا کو آگاہ کر چکا ہے کہ نئی دہلی افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں مداخلت اور دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس حوالے سے محض الزامات نہیں بلکہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کی صورت میں دنیا کے عالمی فورمز پر ثبوت بھی رکھ چکا ہے کہ نئی دہلی کس طرح پاکستان میں جاسوسی اور عدم استحکام کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
خیال رہے کہ بھارت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
استنبول میں ہونے والی افغان امن کانفرنس کے حوالے سے سوال پر صدر علوی کا کہنا تھا کہ پاکستان طالبان کو ترکی میں عید کے بعد ہونے والی کثیر الملکی کانفرنس میں شرکت پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امن کے لیے بات چیت کے ذریعے کردار ادا کرتا رہا ہے تاہم اس حوالے سے فیصلہ طالبان نے خود کرنا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان افغان مسئلے کا وہی حل چاہتا ہے جو افغان عوام کی خواہش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف یہ چاہتا ہے کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار ہوں اور خطے میں استحکام آئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 35 لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دے کر دنیا کے لیے رواداری کی ایک مثال قائم کی ہے اور اس حوالے سے دنیا کو پاکستان کے کردار کو سراہنا چاہیے۔
'بائیڈن سے متاثر ہوں، تعلقات میں پختگی آئے گی'
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کہتے ہیں کہ وہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن سے پہلے ہی متاثر ہیں اور پاکستان بائیڈن انتظامیہ کے دور میں واشنگٹن سے اچھے مراسم کی توقع رکھتا ہے۔
عارف علوی نے بتایا کہ 2011 میں عمران خان کے ہمراہ ان کی موجودہ امریکی صدر سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے جو بائیڈن سے ان کے پاکستان اور افغانستان پر لکھے گئے مضمون پر گفتگو کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن جنگ سے زیادہ امن کے لیے سرمایہ کاری پر یقین رکھتے ہیں اور اس بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتری کی جانب جائیں گے۔
'پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کا عدم تعاون صدارتی آرڈیننسز کی وجہ'
ملکی سیاسی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کے عدم تعاون کی وجہ سے حکومت زیادہ قانون سازی کرنے میں ناکام رہی ہے مگر چوں کہ حکومتی امور کو چلانے کے لیے قوانین میں تبدیلی اور نئے قوانین ناگزیر ہیں اس لیے صدارتی حکم ناموں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کو پارلیمنٹ کو بہتر طور پر چلانے اور قانون سازی کے حوالے سے آپس میں مشاورت کرنی چاہیے اور ایسے بہت سے قومی معاملات ہیں جن پر دونوں بینچز ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں۔
صدر عارف علوی کہتے ہیں کہ حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان مفاہمت میں احتساب کا عمل حائل ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ احتساب ہونا چاہیے البتہ یہ ضروری ہے کہ اس عمل میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ سے متعلق صدارتی ریفرنس
پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کی نااہلی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر بات کرتے ہوئے عارف علوی کا کہنا تھا کہ عدالت نے جو فیصلہ دیا درست دیا۔
انہوں نے کہا کہ صدر کے ماتحت کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں لہذا اگر کوئی ریفرنس آتا ہے تو میرے پاس بہتر راستہ یہ ہے کہ میں اسے سپریم جوڈیشل کونسل کو فیصلے کے لیے بھیج دوں۔
عارف علوی کہتے ہیں کہ انہیں اپنی عدلیہ پر مکمل بھروسہ ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے حکومت کی جانب سے جسٹس فائز عیسیٰ کی نااہلی کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا۔