خانہ فرہنگ ایران لاہور کے تحت “آن لائن القدس کانفرنس”
رب ممالک کی جو ان نسل “فلسطین کاز” کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ انہیں خود معلوم ہے کہ ان کی تعداد بہت کم ہے، مگر ان کی دینی غیرت اب بھی جاگ رہی ہے۔
شیئرینگ :
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سینیئر نائب صدر حجۃ الاسلام والمسلمین سید مرید حسین نقوی نے خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران لاہور کے تحت منعقدہ “آن لائن القدس کانفرنس” سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین سے متعلق تین طرح کے لوگوں کے بیانات اور نظریات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: مذہبی افراد، لبرل طبقہ اورہر ملک کے بااثر لوگ۔ پھر ان بیانات کی روشنی میں غاصب اسرائیل کے وجود میں آنے کی وجوہات تلاش کرنی چاہئیں جن میں سے سب سے اہم اور بڑی وجہ مقتدر حلقے کی طرف سے لوگوں کی رائے کو کوئی اہمیت دئیے بغیر من مانیاں کرنا اور من پسند فیصلے کرنا ہے۔
انہوں نے غاصب اسرائیل کے ناپاک وجود کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نام نہاد اسلامی ممالک کی دینی غیرت مرچکی ہے، جب کسی کی دینی غیرت ختم ہوجائے تو وہ کوئی بھی غیر انسانی حرکت کر سکتا ہے۔ کچھ ڈر پوک مسلم حکمرانوں نے خوف، بزدلی اور بے غیرتی کی وجہ سے اس غاصب حکومت کو تسلیم بھی کرلیا اور اس کے ساتھ اچھے تعلقات بھی استوار کر لئے۔
جامعۃ المنتظر لاہور کے ناظم اعلیٰ کا کہنا تھا کہ فلسطین کے حوالے سے مذہبی لوگوں کے بیانات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یورپ ممالک کے باشندے بھی مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور یوم القدس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم دن کا بانی حضرت امام خمینی ؒ تھے۔ انہوں نے “فلسطین کاز” کو زندہ کیا اورفلسطین پر قبضہ جمانے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی ابتداء کی۔ امام خمینیؒ کا یہ طرز عمل رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرتا گیا اور آج نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی فلسطین کے ساتھ ہیں۔ یہاں تک کہ یورپ میں بسنے والے یہودی بھی اسرائیل کے خلاف ہمارے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل قائم رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عرب ممالک کی جو ان نسل “فلسطین کاز” کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ انہیں خود معلوم ہے کہ ان کی تعداد بہت کم ہے، مگر ان کی دینی غیرت اب بھی جاگ رہی ہے۔ دوسری جانب بعض عرب ممالک کی دینی غیرت ختم ہوگئی ہے جو اپنے مفاد کی خاطر صہیونیوں کا ساتھ دیتے ہیں اور صہیونی غاصب بھی اپنے مفاد کے خاطر ان ممالک کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسرائیل کا مقصد ان عرب ممالک سے اسلامی تہذیب کو ختم کرنا ہے۔ البتہ عربوں نے اسلامی تہذیب کو مٹانے کا کام خود اپنے ہاتھوں سے شروع کیا ہے ، جس کی تابوت میں آخری کیل اسرائیل ٹھونک دے گا۔
علامہ سید مرید نقوی نے کہا کہ امام خمینی ؒ نے سب سے پہلے جو بیان صادر فرمایا، وہ عمومی اور عوامی اظہار تھا اور اپنی نوعیت کا بہت ہی مستحکم بیان تھا۔پوری دنیا میں اس بیان کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی مسئلہ فلسطین کے متعلق یہ پہلے درجے کا نظریہ ہے۔ اس کے بعد لبرل طبقے کا نظریہ ہے ۔ان کا کہنا ہے جب معاملہ عربوں کا ہے اور انہوں نے قبول کیا ہے تو ہمیں اسرائیل سے کیا مسئلہ ہے؟ اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ فلسطین اور القدس کا مسئلہ عربوں کا معاملہ نہیں یہ اسلام کا معاملہ ہے۔ یہ زمین ارض مقدس ہے، یہ زمین ابراہیمی ہے، جو نہ صرف عربوں کی ہے ، بلکہ اس زمین پر ہر اس مسلمان کا حق ہے جو حضرت ابراہیم اور قبلہ اول پر ایمان رکھتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں خداوند عالم نے فرمایاہے:”اس زمین پر ہمارے نبی(ص) کو لے جایا گیا ہے۔” یہ زمین اتنی ہی مقدس ہے جتنا کعبۃ اللہ ہے۔ جس طرح کعبۃ اللہ صرف عربوں کا نہیں، بیت المقدس بھی صرف عربوں کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ تیسرا نظریہ طاقتور حلقے کا ہے۔ الحمد اللہ میں ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتا ہوں جہاں کے حکمران اور دیگر حکومتی اداروں کا اب تک یہی نظریہ ہے کہ ہم نہ تو غاصب صہیونیوں کو تسلیم کر چکے ہیں اور نہ کبھی تسلیم کرینگے۔ ہم اسرائیل کے حوالے سے وہی نقطہ نظررکھتے ہیں جو ہمارے عظیم لیڈر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا نقطہ نظر تھا۔قدس کے مسئلے کو عالمی مسئلہ بنانے کا سہرا امام امت حضرت امام خمینی ؒ ؒ کے سر سجتا ہے اور موجودہ دور میں ان کی مشن کو زندہ رکھنے والی شخصیت حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ ہیں جوبذات خود اس طرح کے مسائل کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور جب تک ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم ہے ان شاء اللہ کشمیر ، فلسطین، شام، عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں دشمن کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑے گی۔