تاریخ شائع کریں2023 15 May گھنٹہ 15:31
خبر کا کوڈ : 593538

1923 کے بعد سے آج تک کے ترک صدور

صدر کو یونیورسٹیوں کے سربراہان سے لے کر عدالت کے اعلی ججوں کو تعیینات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ موجودہ اپوزیشن کے اہلکار صدر مملکت کے ان اختیارات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
1923 کے بعد سے آج تک کے ترک صدور
ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے ساتھ یہ عوامی مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ موجودہ ملکی نظام پر ایک مرتبہ نظر ثانی کی جائے۔

ماضی میں پارلیمنٹ کے اراکین رائے دہندہی کے ذریعے صدر کا انتخاب کرتے تھے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی جانب سے اس نظام میں ترمیم کے بعد رجب طیب اردوگان پہلے صدر ہیں جو براہ راست عوامی ووٹ سے انتخاب ہوئے ہیں۔ ماضی میں صدر مملکت کے اختیارات محدود ہوتے تھے اسی لئے غیر سیاسی اقدامات کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ اردوگان نے 2018 میں ریاستی نظام متعارف کروایا اور ایک جماعت کی نمائندگی میں ملک کے صدر بن گئے۔ موجودہ حالات میں ان کے مخالفین دوبارہ پارلیمانی نظام کے بارے میں ریفرنڈم کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اگر اپوزیشن کی خواہش کے مطابق ریفرنڈم کے نتائج سامنے آتے ہیں تو ترکی میں وزیراعظم کو اختیارات مل جائیں گے۔

1923 کے بعد سے آج تک کے ترک صدور

1923 میں مصطفی کمال اتاترک یا ترک جنرلوں کے ذریعے ترکی میں جمہوریت آگئی۔ انہوں نے ایک مخصوص قانون کے ذریعے صرف عوامی جمہوری پارٹی کو فعالیت کی اجازت دی جس کو اتاترک نے قائم کیا تھا۔ یہ قانون 1950 تک برقرار رہا۔ اتاترک اور اینونو کے دور میں وزیراعظم کو زیادہ اختیارات حاصل نہیں تھے۔

ان کے بعد صدر مملکت ایک علامتی منصب پر فائز رہا اور اصل اختیارات کا مالک وزیراعظم بن گیا۔ یہ قانون 2018 میں ایک عمومی ریفرنڈم میں ختم کیا گیا اور وزیراعظم کا عہدہ ختم کرکے صدر کو سیاہ و سفید کا مالک بنایا گیا۔ اردوگان کے مخالفین اپنی کامیابی کی صورت میں عمومی ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام ختم کرکے دوبارہ پارلیمانی نظام نافذ کرنے کا وعدہ کررہے ہیں۔ گذشتہ سو سالوں کے دوران ترکی کے صدور درج ذیل ہیں؛

1۔ مصطفی کمال اتاترک 1923 سے 1938 تک

پندرہ سال تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہنے والے اتاترک کو بیماری مجبور نہ کرتی تو تاحیات اس عہدے پر براجمان رہتے۔ وہ مشہور فوجی جنرل تھے اور اتاترک کے نام سے معروف ہوگئے۔

2۔ عصمت اینونو 1938 سے 1950 تک

اینونو اتاترک کے سب سے زیادہ نزدیک تھے اور اتاترک کی زندگی میں وزیراعظم کا عہدہ ان کے پاس تھا۔ وہ ایک فوجی رہنما، مذاکرات کار اور قابل سفارت کار تھے اور ترکی میں اسلام پسندوں کو سرکوب کرکے سیکولرزم نافذ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

3۔ جلال بایار 1950 سے 1960 تک

دس سال ترکی کے سربراہ رہنے والے بایار اپنے پیشروں کے برخلاف ایک معیشت دان تھے۔ 1960 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے بایان اور وزیراعظم عدنان مندرس کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے معزول کردیا گیا اور مندرس سمیت کابینہ کے کئی وزیروں کو پھانسی دی گئی۔

4۔ جنرل جمال گورسم 1961 سے 1966

ترکی کی مسلح افواج کے سربراہ نے فوجی بغاوت کے بعد ایک سال تک وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اس کے بعد صدر مملکت بن گئے۔

5۔ جنرل جودت سونای 1966 سے 1973

جنرل گورسل کی بیماری جب شدت اختیار کرنے لگی تو جنرل سونای نے اقتدار سنبھالا اور مسلح افواج کے سربراہ کی حیثیت سے استعفی دے صدر مملکت بن گئے۔

6۔ ایڈمرل فخری کوروترک 1973 سے 1980 تک

ترکی کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل فخری کورو 1960 سے ملک کے وزیرخارجہ تھے۔ ماسکو میں کچھ عرصہ سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے ترکی کے صدر کے اختیارات سنبھال لئے۔

7۔ جنرل کنعان اورون 1982 سے 1989 تک

1980 میں جنرل کنعان آوزن کی بغاوت کے بعد مختصر مدت کے لئے صدر مملکت کا عہدہ ایک سرپرست کے سپرد کیا گیا لیکن اس کے بعد جنرل آورن ملک کے صدر بن گئے۔

8۔ ترگت اوزال 1989 سے 1993 تک

اوزال انجینئر تھے اور مام جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے مختلف عہدوں پر کام کیا تھا۔ عراقی کے اس وقت کے وزیراعظم نے ترگت اوزال سے کہا تھا کہ انجیرلیک کا ائیرپورٹ امریکہ اور برطانیہ کے حوال کریں تو آپ کو صدام حکومت کا دشمن شمار کیا جائے گا۔

اوزال نے جواب میں کہا کہ صدام کو میرا سلام اور پیغام پہنچادیں کہ ترکی کی سرزمین پر ایک بم بھی گرا تو صدام کو بغداد میں پھانسی پر لٹکادیا جائے گا۔

اوزال 1993 میں انتقال کرگئے۔ مبصرین ان کی موت کو مشکوک قرار دیتے ہیں کہ ان کو زہر کے ذریعے موت کی نیند سلادیا گیا۔

9۔ سلیمان ڈیمرل 1993 سے 2000 تک

ڈیمرل بھی انجنئیر تھے اور سیاستدان کی حیثیت سے کئی مرتبہ پارلیمنٹ میں منتخب ہوکر کام کیا تھا۔ انہوں نے کئی دن وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر مملکت کی کرسی پر براجمان ہوئے۔

10۔ احمد نجدت سیزر 2000 سے 2007 تک

سیزر وکیل اور عدلیہ کےجج تھے۔ انہوں نے سات صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا۔ انہوں نے اس دوران تین وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا جن میں بلند ایجوت، عبداللہ اور رجب طیب اردوگان شامل ہیں۔ ان کے عبداللہ گل اور اردوگان کے ساتھ روابط دوستانہ نہیں تھے۔

11۔ عبداللہ گل 2007 سے 2014 تک

عبداللہ گل معاشی ماہر اور سیاست دان تھے جنہوں نے نجم الدین اربکان کے ساتھ سیاست کے گر سیکھے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے عبداللہ گل نے ایک مدت کے لئے سعودی عرب کے بڑی بینک میں بھی مشیر کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ انہوں نے جدت پسند گروپ کے ساتھ 2001 میں فضیلت پارٹی سے جدا ہوکر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔

12۔ رجب طیب اردوگان 2014 سے تاحال

اردوگان دو مرتبہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ اور ایک مرتبہ عوامی ووٹوں سے صدر بن گئے ہیں۔ اور تاحال اس عہدے پر فائز ہیں۔

ترکی کے صدر کی فہرست پر نظر دوڑانے سے واضح ہوتا ہے کہ ترک فوج سے تعلق رکھنے والے افسران نے 51 سال تک ترکی کے صدارتی منصب پر قبضہ کئے رکھا ہے۔

صدارتی محل اور 16 ستارہ والا مخصوص نشان

دارالحکومت انقرہ میں واقع چانکایا محل ترک صدر کی رہائش گاہ تھا۔ عبداللہ گل نے اس محل میں اقامت کرنے والے آخری صدر تھے۔ رجب طیب اردوگان نے اس مقام پر فائز ہونے سے پہلے صدارتی محل کو وسیع مقام پر منتقل کرنے کا حکم جاری کیا۔ وہ جدید اور باشکوہ صدارتی محل کے معتقد تھے۔ انقرہ میں ایک پہاڑی پر عظیم الشان محل تعمیر کیا گیا۔ اس محل میں 1200 سے زائد کمرے اور بڑے ہال ہیں۔ بڑے بجٹ کی وجہ سے یہ محل ہمیشہ اپوزیشن کے اعتراضات کا نشانہ بنا ہے۔

ترکی کے صدارتی جھنڈے پر موجود سورج اور 16 ستارے ترک تاریخ کے بڑے بادشاہوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ترک آئین کے مطابق صدر مملکت ملکی فوج کے سربراہ ہیں اور بیرون ملک فوج تعیینات کرنے اور دیگر اہم فیصلے کرنے میں وہ پارلیمنٹ سے مشورہ کرنے کے پابند ہیں۔ اردوگان کے دور میں صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا اور پارلیمنٹ کو صدر پر نگرانی کے اختیارات سے محروم کیا گیا۔

صدر کو یونیورسٹیوں کے سربراہان سے لے کر عدالت کے اعلی ججوں کو تعیینات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ موجودہ اپوزیشن کے اہلکار صدر مملکت کے ان اختیارات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdcc11qp42bqop8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ