اس انقلاب نے اپنے قیام کی جدوجہد اور اس کے بعد اپنے بقا کی جدوجہد میں جتنی قربانیاں دی ہیں، فقط ان کا تذکر یا عناوین دیئے جائیں تو کتابوں کی کئی جلدیں بن جائیں۔
شیئرینگ :
تحریر: ارشاد حسین ناصر
اس دنیا میں روزانہ فجر طلوع ہوتی ہے اور ہم اپنی اپنی جگہ پر اس طلوع کو دیکھتے ہیں، سورج اپنی روایتی آب و تاب سے نکلتا ہے, اک نیا دن شروع ہوتا ہے اور زندگی یونہی آگے بڑھ جاتی ہے. معمولات کا پہیہ جیسے چلتا آ رہا ہے، ہم ایسے ہی اسے گزار دیتے ہیں، مگر بیالیس سال پہلے دنیا کے نقشے پر موجود پاکستان کے ہمسائے میں اک ایسی فجر بھی طلوع ہوئی، جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور مستقبل کی سیاست، ثقافت، سماج اور دنیا کے حالات کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ دنیا کو دیکھنے، پرکھنے اور اس کے مسائل و معاملات سے نمٹنے کیلئے کئی نئے زاویوں پر سوچ و بچار کو جنم دیا، بہت سی نئی راہوں کو کھول دیا، بہت سے بند کواڑوں میں زندگی کی چہل پہل کو بحال کر دیا، بہت سی فلاسفیز اور افکار کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا، بہت سے ناممکنات کو ممکنات کا پیراہن دیا۔
یہ فجر کیا طلوع ہوئی اک نئی بہار ہماری زندگیوں میں لے آئی، یہ بہار ایک ایسے روزن سے آئی جسے بند ہوئے اڑھائی ہزار سال ہوچکے تھے، اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا تالہ لگے بند کواڑوں کو کھولا گیا تو یہ بہار آئی۔ اس بہار کی کہانی بلا شبہ ہزاروں لوگوں نے اپنے پاک لہو سے لکھی اور لاکھوں لوگ گذشتہ بیالیس سال سے اس بہار کو خزاں میں بدلنے کی سازش کرنے والوں کو ناکام بنانے کیلئے لکھ رہے ہیں۔ یہ بہار بیالیس سال پہلے اک مرد قلندر، اک خاک نشین، اک بندہ خدا، اک فرزند کربلا، اک فرزند سیدہ سلام اللہ، اک فرزند ابا عبد اللہ الحسین اپنی لازوال جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعد لے کے آئے تھے۔ امام خمینی (رہ) نے ایک ایسے ملک و معاشرے میں انقلاب برپا کیا، جس میں گذشتہ اڑھائی ہزار سال سے بادشاہت قائم تھی اور اس کا کنٹرول عملی طور پر بادشاہ کے سرپرستوں امریکہ و اسرائیل کے پاس تھا۔
تہران میں قائم امریکہ کا سفارت خانہ دنیا بھر میں سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز اور سازشوں کا گڑھ تھا۔ اس کے باوجود یہ عوامی اور جمہوری و اسلامی انقلاب برپا ہوا، امام خمینی (رہ) جنہیں شاہ نے جلا وطن کر دیا تھا اور وہ ترکی، عراق سے ہوتے ہوئے فرانس میں میں مقیم تھے، جب واپس ایران پہنچے تھے تو ان کا فقید المثال استقبال ہوا، میدان آزادی تہران اور مہر آباد ایئر پورٹ پر دنیا امڈ آئی تھی۔ یہ ایک تاریخی استقبال تھا، جس کے بعد شاہ ایران سے فرار کر گیا تھا، شاہ جس نے امام خمینی کو جلا وطن کیا تھا، اسے کسی نے قبول بھی نہ کیا اور وہ خود دیار غیر میں مر کر دفن ہوا۔ آج اس کا نشاں بھی باقی نہیں ہے مگر امام خمینی کے لائے ہوئے اسلامی انقلاب اور امام خمینی سے محبت کرنے والوں کی تعداد بلا شبہ کروڑوں میں ہے اور ان کا تعلق کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں اس انقلاب اور اس کے بانی سے محبت کرنے والے، اس الہیٰ انسان کی فکر سے رشد حاصل کرکے اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے دنیا کے بیسیوں ممالک میں موجود ہیں۔
جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ انقلاب اور اس کے بانی کا نظریہ و فکر الہیٰ و اسلامی ہے، جسے اپنا کر اور اس پر عمل کرکے اس راہ پر چل کر استعمار اور اس کے پروردوں کے چنگل سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ آج جب ہم سب اس الہیٰ انقلاب کی بیالیسویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ہم اس بات پہ نازاں ہیں کہ اس انقلاب کی بدولت دنیا بھر میں پسے ہوئے طبقات، اقتصادی، معاشی، سماجی اور سیاسی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوچکی ہے اور وہ استعمار جہاں کو للکارتے ہوئے میدان میں بھی اتر چکے ہیں، انقلاب ایران ایک ایسا موضوع ہے، جس نے بیالس سال کامیابی سے گزار لئے ہیں، اگر اس کی فقط کامیابیوں، اس کے عالمی اثرات، امت مسلمہ پر اس کے احسانات، اسلامی مقاومتی و مزاحمتی تحریکوں میں اس کے کردار، مکتب امام صادق اور اس کی حقیقی معرفت و پہچان، تشیع کے اصل دفاع، آئمہ طاہرین علیھم السلام اور ان کے سیاسی و سماجی انقلابات کی پرکھ اور پہچان اس انقلاب کی بدولت دنیا پر بہت ہی شفاف طریقہ سے واضح ہوئی ہے۔
اس عظیم انقلاب کو پہلے تو ناکام بنانے کی بھرپور سازشیں ہوئیں، اس کے خلاف پراپیگنڈا اور اس کی قیادت کے خلاف بے سر و پا باتوں اور الزامات کی بھرمار، اس میں ناکامی کے بعد استعمار نے انقلاب کی اصل اور حقیقی قیادت کو راستے سے ہٹانے کی بھرپور کوششیں کیں، کیسے کیسے گوہر نایاب اس انقلاب نے قربان کر دیئے۔ امام خمینی کے فرنٹ لائن کے سپاہی اور کمانڈر سب ہی شہید ہوگئے، انقلاب اسلامی کے فکری مراکز اور مغز ہائے متفکر جیسے بہشتی، مطہری، رجائی، باہنر اور اراکین پارلیمنٹ کی بڑی تعداد سب ہی شہید کئے گئے۔ امام خمینی نے سانحہ مکہ کا غم سہا، امام خمینی نے زہریلی گیس کے شکار حلبچہ کے عام کرد عوام کا غم سہا، امام خمینی نے چمران کی جدائی برداشت کی، امام خمینی نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں ہر دن زہر کا پیالہ پیا، مگر امام خمینی جو اس تحریک کے بانی تھے، اپنے جد ابا عبد اللہ الحسین کی طرح عصر عاشور کے منظر کو دوہراتے اکیلے بھی لشکر یزید کے مقابل نظر آئے۔
انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا، انہوں نے ہمت نہیں ہاری، انہوں نے شکست نہیں تسلیم کی، انہوں نے گردن نہیں جھکائی، انہوں نے ہدف کو دھندلا اور گدلا نہیں ہونے دیا۔ انہوں مقصد کو مٹنے نہیں دیا، انہوں نے فقط جدا ہونے والے ساتھیوں کا غم نہیں منایا بلکہ جس مقصد کیلئے انہوں نے قربانیاں دیں، اس کو آگے بڑھانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے رکھی۔ نوزائیدہ انقلاب پابندیوں کا شکار ہوا، اس پر جنگ مسلط کی گئی، جو آٹھ سال تک جاری رہی، اس کی قیادت کو راہوں سے ہٹایا گیا، اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کیا گیا، اس پر شعب ابی طالب کا زمانہ آیا، اس کے باوجود اس انقلاب کی کرنیں سماج و عوام کو اپنے نور سے منور کرتی رہیں اور ہر گزرنے والے دن کیساتھ سازشیں ناکام ہوتی رہیں اور انقلاب مضبوط ہوتا رہا۔ اس انقلاب نے اپنے قیام کی جدوجہد اور اس کے بعد اپنے بقا کی جدوجہد میں جتنی قربانیاں دی ہیں، فقط ان کا تذکر یا عناوین دیئے جائیں تو کتابوں کی کئی جلدیں بن جائیں۔
بہرحال اس الہیٰ و اسلامی انقلاب کو بیالس برس بعد بھی نہ تو اس کے ہماسیوں نے قبول کیا ہے اور نہ ہی اس سے شکست کھانے والے ان سب کے سرپرست امریکہ نے اسے قبول کیا ہے، جبھی تو مسلسل اسلامی انقلاب پابندیوں کا شکار چلا آرہا ہے۔ موت بہرحال ایک امر الہیٰ ہے، جس کا ذائقہ ہر ایک نے چکھنا ہے، اس انقلاب کے بانی امام خمینی جب 3 جون 1989ء کو اس دنیا سے رحلت فرما گئے اور انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا تو دشمنان انقلاب و اسلام کیلئے یہ بہت ہی خوشی کا دن تھا، مگر انقلاب کے فرزندوں کیلئے سب سے بھاری دن تھا۔ امام (رہ) کی جدائی واقعی بہت گراں تھی، ابھی تو یہ انقلاب سنبھل بھی نہیں پایا تھا، ابھی تو اس نے کھل کر سانس بھی نہیں لیا تھا، ابھی تو سازشوں کے جال اپنے بام عروج پہ تھے کہ امام خمینی (رہ) کی جدائی کو بھاری دلوں کے ساتھ قبول کرنا پڑا۔ انہوں نے فقط دس برس بعد از انقلاب حیات گزاری مگر انقلاب کی جڑوں بالخصوص اس کی فکری و نظریاتی بنیادوں کو مضبوط اور توانا کر گئے کہ دشمن آج ان کی جدائی کو تیس برس گزرنے کے بعد بھی ہاتھ ملتا نظر آتا ہے۔
انقلاب الحمد للہ اپنے بام عروج پر انسانیت کی خدمت اور اسلام حقیقی کی معرفت و پہچان اور دنیا میں نمائندگی کا حق ادا کرکے سرخرو ہے۔ وہ ہمسائے جنہوں نے اسلام کے ازلی دشمن اور انقلاب سے مسلسل زخم کھانے والے امریکہ کے دم چھلہ بننے کو ترجیح دی، آج مشکلات و پریشانیوں کا شکار ہیں جبکہ انقلاب سے جڑی اسلامی تحریکوں، مزاحمتی تنظیموں اور گروہوں چاہے ان کا تعلق یمن سے ہو یا فلسطین سے، لبنان سے ہو یا شام سے، عراق سے ہو یا بحرین سے، حجاز سے ہو یا نائیجیریا سے، اپنی تحریکوں کو کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں اور انقلاب اسلامی ایران، ان کی عملی و فکری مدد و نصرت کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے استعمار اس کے چیلے چانٹے ہر جگہ ناکام و نامراد دکھتے ہیں، جبکہ پابندیوں کا شکار ایران اپنی سرزمین کے دفاع و ترقی کیلئے دیگر تمام ممالک کیلئے ایک نمونہ کے طور پر موجود ہے۔ اس کی کامیابیوں کی فہرست بھی بہت طویل ہے، بس اتنا سمجھ لیں کہ اگر اسلامی ایران اپنے پائوں پہ کھڑا نہ ہوتا تو امریکہ جیسے دشمن اور ایران کے چاروں طرف کھڑے کئے گئے داعشی فتنوں کی زد میں لا کر اس کا نام و نشاں (خدا نخواستہ) مٹا دیا جاتا۔
جیسا افغانستان اور مصر و الجزائر میں آنے والی نا تجربہ کار حکومتوں کو ختم کیا گیا ہے، جیسے لیبیا، تیونس، مصر میں اسے کامیابی ملی ہے، ایسے ہی شام و عراق اور لبنان میں بھی سازشیں کی گئیں، جنہیں انقلاب کے فرزندان نے ناکام بنایا۔ اس لئے کہ انقلاب کے فرزندان نے انہیں اپنے لئے ریڈ لائینز قرار دیا تھا۔ اگر دشمن ان جگہوں پر کامیاب ہو جاتا تو ایران کے اندر داخل ہونے کے اس کے منصوبے بھی کامیاب ہوسکتے تھے۔ دنیا میں بہت سے انقلاب آئے اور ختم بھی ہوگئے۔ ان کے بارے میں یونیورسٹیز اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بہت کچھ پڑھایا جاتا ہے، مگر یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس پر تعصب کی عینک چڑھا دی گئی ہے اور اس کی اسٹرٹیجی اور حکمت عملیوں کو امت مسلمہ کیلئے راہنمائی کا درجہ حاصل ہے۔ اگر اپنی سرزمین کو عالمی استعماری طاقتوں اور جابر و ظالم حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروانا اور دور جدید کے فتنوں سے بچانا ہے تو اس انقلاب سے راہنمائی ضروری ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اس انقلاب اور اس کے رہبر کا سایہ ہمارے سروں پہ قائم رہے اور ہم اس وعدہ الہیٰ انقلاب امام زمان (عج) کے ساتھ اس انقلاب کو متصل ہوتا دیکھیں۔