پوپ سے ملاقات میں آیت اللہ سیستانی کا دو ٹوک موقف
اس ملاقات کا اہم ترین حصہ دنیا بھر میں اہل تشیع کے عظیم مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سیستانی کی جانب سے پیش کردہ اصولی اور اسٹریٹجک موقف پر مشتمل ہے۔ آیت اللہ العظمی سیستانی نے اس ملاقات میں ان حلقوں کو شدید مایوسی کا شکار کر دیا جو اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ بعض عرب ممالک کی جانب سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے عمل کو اچھا اور مثبت کر کے پیش کر رہے تھے
شیئرینگ :
تحریر: رامین حسین آبادیان
اگرچہ پوپ فرانسس کے دورہ عراق کے بارے میں مختلف ردعمل ظاہر ہوئے ہیں لیکن اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اس خیر مقدم کی بنیادی وجہ دو بڑے ادیان یعنی اسلام اور عیسائیت کی باہمی قربت ہے۔ اگرچہ عراق کے اندر اور باہر بعض سیاسی حلقوں نے اس ملاقات کو اپنی مرضی کے مطابق ایک خاص رنگ دے کر پیش کیا ہے لیکن ملاقات کے دوران آیت اللہ العظمی سیستانی کے موقف نے اس فضا کو مطلوبہ اہداف کی جانب گامزن کیا ہے۔ آیت اللہ العظمی سیستانی نے اس ملاقات میں بہت واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کیا جس کی بدولت مخصوص حلقوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی چہ میگوئیاں دم توڑ بیٹھیں۔ اس واضح موقف کے باعث آیت اللہ العظمی سیستانی کے ساتھ عالمی سطح پر کیتھولک فرقے کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی ملاقات کی مثبت تصویر سامنے آئی۔
اس ملاقات کا اہم ترین حصہ دنیا بھر میں اہل تشیع کے عظیم مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سیستانی کی جانب سے پیش کردہ اصولی اور اسٹریٹجک موقف پر مشتمل ہے۔ آیت اللہ العظمی سیستانی نے اس ملاقات میں ان حلقوں کو شدید مایوسی کا شکار کر دیا جو اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ بعض عرب ممالک کی جانب سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے عمل کو اچھا اور مثبت کر کے پیش کر رہے تھے۔ آیت اللہ العظمی سیستانی نے اس بارے میں اصولی موقف بیان کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عالمی اور علاقائی سطح پر جاری سیاسی حالات سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اس ملاقات میں آیت اللہ العظمی سیستانی کے بیان کردہ موقف کا ایک حصہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کئے جانے کے حالیہ سلسلے سے مربوط ہے۔
پوپ فرانسس اور آیت اللہ العظمی سیستانی کے درمیان ملاقات کے بعد مرجع عالی قدر کے دفتر نے ایک تفصیلی بیانیہ جاری کیا جس میں ملاقات کے دوران انجام پانے والی گفتگو کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اس بیانیے کا خلاصہ کرتے ہوئے اس میں سات "نہ" ذکر کی ہیں: محاصرہ اور پابندیوں کے مقابلے میں نہ، ظلم و ستم کے مقابلے میں نہ، شدت پسندی کے خلاف نہ، غربت کے مقابلے میں نہ، مذہبی آزادیوں کو کچلے جانے کے مقابلے میں نہ، سماجی ناانصافی کے مقابلے میں نہ اور سازباز کے مقابلے میں نہ۔ اس ملاقات میں آیت اللہ العظمی سیستانی نے بہت واضح انداز میں مسئلہ فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے پوپ فرانسس سے ملاقات میں مظلوم فلسطینی قوم کو درپیش مشکلات اور سختیوں کے جلد از جلد خاتمے پر زور دیا ہے۔
آیت اللہ العظمی سیستانی کے بیانات سے یہ اہم پیغام دنیا والوں تک پہنچا کہ مختلف الہی ادیان کے پیروکاروں کا امن و امان سے ایک ساتھ رہنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ غاصب صہیونی رژیم کا قبضہ جائز اور قانونی ہے اور اس سے دوستانہ تعلقات استوار کرنا جائز ہے۔ اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ پوپ فرانسس نے عراق دورے سے پہلے کئی عرب ممالک کا دورہ بھی کیا ہے جن میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔ پوپ فرانسس کے دورے کے دوران متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات کو درست ظاہر کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ انہوں نے حتی پوپ کے دورے کو بھی غاصب صہیونی رژیم سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے استعمال کیا اور اسرائیل سے تعلقات کو مذہبی اور دینی رنگ دینے کی کوشش کی۔
نجف میں مقیم مجتہد آیت اللہ شیخ حسین النجفی کے بیٹے شیخ علی النجفی کے بقول آیت اللہ العظمی سیستانی نے مسئلہ فلسطین سے متعلق اپنے اس اصول موقف کے ذریعے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے تابوت میں آخری کیل گاڑ دی ہے۔ فلسطینی مصنف عبداللہ السلامی نے بھی آیت اللہ العظمی سیستانی کے موقف کو بے مثال شجاعت اور قابل فخر قرار دیا ہے۔ آیت اللہ العظمی سیستانی نے مسئلہ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی مخالفت کے علاوہ جو تیسرا نکتہ بیان کیا وہ پابندیوں کی مخالفت پر مشتمل تھا۔ مخالف ممالک پر اقتصادی پابندیاں آج امریکہ کی خارجہ سیاست کے اصلی ہتھکنڈے میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ممالک اور گروہوں کے خلاف یہ ہتھکنڈہ استعمال کر رہے ہیں۔
آیت اللہ العظمی سیستانی نے اپنی گفتگو میں شدت پسندی کی مخالفت کا بھی اظہار کیا ہے۔ یاد رہے عراق میں شدت پسندی کی بنیاد امریکہ، مغربی ممالک اور خطے میں ان کے اتحادیوں نے رکھی تھی اور اس بات کا اعتراف خود امریکی حکمران بھی کر چکے ہیں۔ آیت اللہ العظمی سیستانی نے غربت کے خاتمے پر بھی زور دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے آپ کی مراد یمن جنگ کا خاتمہ تھی۔ یوں آیت اللہ العظمی سیستانی نے یمنی شہریوں کو درپیش شدید غربت کے خاتمے پر تاکید کی ہے۔ آیت اللہ العظمی سیستانی کی گفتگو کا ایک اور اہم نکتہ مذہبی آزادی محدود کرنے کی کوششوں کی مخالفت پر مبنی تھا۔ آج ہم مغربی ممالک میں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کے خلاف قوانین بنائے جا رہے ہیں اور ان کی سرگرمیاں محدود کی جا رہی ہیں۔