سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس نئے رُشدی کو اُسکے طاغوتی آقا سلمان رُشدی جتنی ہی اہمیت دیں گے!؟ اور کیا مسلمان علما اپنی صفوں سے اٹھنے والے اِن منافقوں کی روک تھام کیلئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کر پائیں گے؟
شیئرینگ :
تحریر: نذر حافی
سلمان رشدی ایک ہندوستانی مسلمان تھا، اس کا برائے نام تعلق اہل سنت فرقےسے تھا۔ وہ ۱۹۴۷ میں بمبئی میں پیدا ہوا،اُس نے ابتدائی تعلیم وہیں عیسائیوں کے ایک سکول میں حاصل کی۔ بعد ازاں اُس کی کم سنی میں ہی اُس کا خاندان ا نگلستان پہنچا، باقی تعلیم اس نے انگلستان میں لی، اسے وہیں کی شہریت ملی اور وہیں پر وہ ایک قلمکار کے اعتبار سے معروف ہوا۔ یاد رہے کہ ۱۹۶۸ میں وہ کسی ٹی وی چینل سے وابستہ ہو کر کچھ عرصہ پاکستان میں بھی رہا۔ 26 ستمبر سنہ 1988ء کو اُس کا متنازعہ ترین ناول The Satanic Verses انگلینڈ سے شائع ہوا۔ اس سے پہلے وہ تین معروف ناول Midnight Children، The Moor’s Last Sigh اور Shame لکھ چکا تھا۔ اسکے متنازعے ناول کی اشاعت کے بعد ساری دنیا میں منصف مزاج لوگوں نے اس کے خلاف مظاہرے کئے۔ اسقف، کاردینال اوکونر، انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی ، کیتھولک چرچ ویٹیکن، متحدہ میتھوڈسٹ، پروٹسٹنٹ کلیسا، خاخام امانوئل ژاکوبو ویتز اور اشکنازی یہودی خاخام وغیرہ وغیرہ نے اس کتاب کی اشاعت کو ممنوع قرار دیا۔ پاکستان سمیت متعدد ممالک نے اس کتاب پر پابندی عائد کی، برطانیہ میں بریڈفرڈ سمیت کچھ ممالک میں یہ کتاب سرِعام جلائی گئی اور بعض مقامات پر دکانیں بھی نذرِ آتش کی گئیں۔ دنیا بھر کےمسلمانوں میں بے تابی اور بے چینی عروج پر تھی۔ اس ماحول میں 14 فروری سنہ 1989 کو امام خمینی نے اس کے قتل کا شہرہ آفاق فتویٰ دیا ۔ اس فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو بھی سلمان رُشدی کے تعاقب میں مارا جائے وہ شہید ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ اس وقت فتوے کے علاوہ امام خمینی نے سلمان رُشدی کو قتل کرنے والے کیلئے تین کروڑ ڈالر کا انعام بھی مقرر کیا۔ اس فتوے کے بعد شیعہ اور سُنی کا فرق مٹ گیا اور سلمان رُشدی کا تعاقب ایک دینی فریضے میں تبدیل ہو گیا۔ یہ فتویٰ آج بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے اور اس کے رد عمل میں ایران پر لگنے والی پابندیاں بھی اُسی طرح قائم ہیں۔
قارئین کی آگاہی کیلئے امام خمینی کا فتویٰ ٰ بھی پیشِ خدمت ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انا للہ و انا اليہ راجعون
پورے عالم کے غیور مسلمانوں کیلئے اعلان کرتا ہوں کہ شیطانی آیات نامی کتاب جو اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف تدوین اور شائع ہوئی ہے، اسکے مؤلف سمیت اس کے متن اور مضمون سے آگاہ و مطلع ناشرین واجب القتل ہیں۔ میں تمام غیور مسلمانوں سے چاہتا ہوں کہ ان افراد کو جہاں بھی پائیں، معدوم کردیں تا کہ اس کے بعد کوئی بھی مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کی جرأت نہ کرسکے اور جو بھی اس راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے ان شاء اللہ۔ اگر کتاب کا مؤلف کسی کے علم میں ہے لیکن وہ اس کو قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو اطلاع دے تا کہ گستاخ اپنے عمل کی سزا پائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
اس فتوے کے بعدافریقہ سے تعلق رکھنے والا مصطفی محمود مازح وہ پہلا جوان ہے جو سلمان رُشدی کے تعاقب میں شہید ہوا اور اب تک نجانے کتنے جوان اس تعاقب میں کام آچکے ہیں۔ فتویٰ دینے کے چار ماہ بعدحضرت امام خمینی کا انتقال ہوگیا اور پہلے چھ ماہ میں برطانوی حکومت نے موت کے خوف میں مبتلا رُشدی کو ۵۶ حفاظتی مقامات پر منتقل کیا۔ اس کے علاوہ جولائی 1991 میں رُشدی کی کتاب کے جاپانی مترجم پر پھر جلد ہی اطالوی مترجم اور ۱۹۹۳ میں ناروے میں پبلشر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ آج کل ہندوستان میں ایک اور رُشدی نے جنم لیا ہے۔
اس شخص نے بھی سلمان رُشدی کی طرح ہی قرآنی آیات کی توہین کی ہے۔
یاد رہے کہ طاغوت نے یہ نیا رُشدی اہلِ تشیع میں سے سامنے لایا ہے۔ جس طرح سلمان رُشدی برائے نام سُنی تھا اسی طرح وسیم رُشدی بھی نام کا شیعہ ہے۔ سارے مسلمان اُسے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا مہرہ قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنا نام وسیم بتاتا ہے اور لوگ اُسے وسیم رُشدی کہہ کر پکار رہے ہیں۔ اس نئے رُشدی نے نعوذباللہ جہاد سے متعلق قرآن مجید کی ۲۶ آیات کو جعلی قرار دیا ہے۔ اس نے بھارتی سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے کہ جہاد سے متعلق اِن آیات کو قرآن مجید سے نکالا جائے۔ اس کے بعد مسلمانوں کا مشتعل ہونا ایک فطری عمل ہے۔ تاہم آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکر یٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے مسلمانوں سے پُر امن کی اپیل کی ہے ۔ یہ اپیل اپنی جگہ لیکن آل انڈیا مجلس علماء ہند کے جنرل سکرٹری مولانا سید کلب جواد نے اپنا شدید ردعمل دکھاتے ہوئے مسلمانوں سے اس نئے رُشدی کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے اور اسے اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے معزز ممبر مولانا محفوظ الرحمن نے اس کے جرم کو ناقابلِ معافی قرار کہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مختلف شہروں میں شیعہ و سنی دونوں کی طرف سے احتجاج شروع ہو چکے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے صنعتی شہر اندور میں اہل تشیع نے زبردست احتجاج کیا ، اس موقع پر مقررین نے وسیم رُشدی کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ۔
دارالعلوم دیوبند نے بھی اس کی کھل کر مذمت کی ہے۔ آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا سیف عباس نے بھی وسیم رُشدی کو گمراہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ کے قومی صدر و ورلڈ صوفی فورم کے چیئرمین حضرت سید محمد اشرف کچھوچھوی نے عوام سے مشتعل نہ ہونے، احتجاج و مظاہرہ و جلسے اور سوشل میڈیا پر گالی گلوج نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ اُترپردیش بی جے پی اقلیتی سیل کے چیئرمین عامل شمسی نے بھی مذکورہ شخص کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مظاہرین نے وسیم رُشدی کے گھر کے باہر قرآن خوانی بھی کی ہے۔ اگرچہ اس کے گھر کی حفاظت کیلئے اس وقت پولیس کی بھاری نفری موجود ہے تاہم اس وقت سارا ہندوستان لاوے کی طرح اُبل رہا ہے۔ یہ غصہ اور احتجاج صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔
جموں وکشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام نے وسیم رُشدی کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے لوگوں سے پر امن احتجاج کی اپیل کی ہے۔ اسی طرح جموں وکشمیر انجمن شرعی شیعیان کے صدر آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے بھی وسیم رُشدی کی اس حرکت کو دینِ اسلام کی توہین قرار دیا ہے۔ المختصر یہ کہ مقبوضہ کشمیر سے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام، آغا سید حسن الموسوی ، علامہ غلام رسول حامی ، مولوی عباس انصاری، مولانا مسرور عباس، اور تحریک وحدت اسلامی سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے تمام مذہبی وسیاسی رہنماؤں اور تنظیموں نے اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس نئے رُشدی کو اُسکے طاغوتی آقا سلمان رُشدی جتنی ہی اہمیت دیں گے!؟ اور کیا مسلمان علما اپنی صفوں سے اٹھنے والے اِن منافقوں کی روک تھام کیلئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کر پائیں گے؟