لاطینی امریکی حکمران اور عوام امریکہ سے منہ موڑ کر مشرقی ممالک کی جانب مائل
ہسپانوی اور پرتگالی زبان بولنے والے لاطینی ممالک کی مجموعی آبادی 56 کروڑ سے زائد ہے جبکہ اس خطے کا رقبہ 21 ملین مربع کلومیٹر ہے اس لئے دنیا میں ایک اہم خطہ شمار ہوتا ہے۔
شیئرینگ :
ماضی کے تجربات کی روشنی میں لاطینی امریکی حکمران اور عوام امریکہ سے منہ موڑ کر مشرقی ممالک کی جانب مائل ہورہے ہیں۔ رواں صدی کے آغاز سے ہی خطے میں امریکہ مخالف سوچ کے حامل سیاستدان انتخابات جیت رہے ہیں۔
لاطینی امریکی ممالک کا نام لینے سے امریکہ کی محفوظ اور ذاتی خلوت گاہ کا تصور ذہن میں آتا ہے جو مونروئہ ڈاکٹرائن سے براہ راست اور قریبی تعلق رکھتی ہے۔ لاطینی امریکی خطہ قدرتی ذخائر تیل، گیس اور یورینیم کے حوالے سے مالامال ہے جس سے اس کی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ امریکہ نے 1823 میں اس وقت کے صدر جیمز مونروئہ کے ڈاکٹرائن کے مطابق لاطینی امریکہ پر تسلط قائم کیا۔
مونروئہ ڈاکٹرائن میں اس بات پر تاکید کی گئی تھی کہ جب تک امریکہ حقیقی معنوں میں ترقی اور طاقت حاصل نہ کرے، عالمی سیاست میں بنیادی کردار ادا نہیں کرے گا۔ اس سے پہلے جنوبی امریکہ پر توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ اقتصادی طور پر ضروری طاقت حاصل کرے۔ اس سلسلے میں امریکہ لاطینی ممالک میں اپنی موجودگی کو ہر حال میں یقینی بنائے گا۔ اس خطے پر اپنا سکہ جمانے کے بعد یورپ اور اس کے بعد دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔
میکسیکو میں تعیینات روسی سفیر وکٹر کورونلی نے اس حوالے سے کہا کہ امریکہ مونرو ڈاکٹرائن کے مطابق لاطینی ممالک میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا نظام بدل رہا ہے۔ ایک طاقت کی جگہ کئی طاقتیں جنم لے رہی ہیں۔ امریکہ اس نئے نظام میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لاطینی ممالک میں بائیں بازو کا نظریہ شدت اختیار کرنے سے امریکہ مطلق العنانیت کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس نظریے کے تحت خانہ جنگی، مسلح تحریکیں اور پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے جس کی وجہ سے مالی طور پر نقصانات بھی ہوئے۔ ان تحریکوں کی شکست کے بعد امریکہ نے اپنے پٹھو حکمرانوں کو تعیینات کرنا شروع کیا۔
رواں صدی کے اوائل میں بائیں بازو کی تحریکی نئی شکل میں نمودار ہوئی جس کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس نے واشنگٹن کی سیاسی بالادستی کو چیلنج کرنا شروع کیا در حقیقت بائیں بازو کی تحریک ایسے وقت میں شروع ہوئی جب کمیونسٹ نظام کی ناکامی کے بعد روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور دوسرے نظریات وجود میں آئے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جنگ جیسے نظریات اب بھی باقی تھے۔
گذشتہ دہائیوں کے دوران سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سرد جنگ کے دوران بھی لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کا رجحان پایا جاتا تھا۔ اسی دور میں ہی کیوبا میں فیڈل کاسترو، چلی میں سلواڈور آلندہ اور نیکاراگوئے میں بھی اسی نظریے کے حامی سیاستدان حکمران بنے جبکہ السلواڈور اور گوئٹے مالا میں بھی خانہ جنگی بائیں بازو کی طرف رجحان کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔
اس کے مقابلے میں امریکہ نے اپنے حمایت یافتہ حکمرانون کے ذریعے چلی اور نیکاراگوئے میں فوجی بغاوت کروادی جس کے بعد برازیل، ارجنٹائن، بولیویا، یوراگوئے اور پیراگوائے میں بائیں بازو کے متعدد کارکنوں کو قتل کیا گیا یا جیلوں میں بند کردیا گیا۔ 1980 کی دہائی میں شروع ہونے والے ڈکٹیٹروں کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد 2000 سے انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ بائیں بازو کے سیاستدانوں کو حکومت ملنا شروع ہوا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے 1999 میں ہوگو شاویز کو حکومت ملی جس نے قدرتی ذخائر سے مالامال وینزویلا میں امریکہ مخالف پالیسی تشکیل دی اور مرتے دم تک بائیں بازو کی طرفداری کرتے رہے۔ ان کے بعد برازیل میں لولا ڈی سلوا اور دیلما روسف، یوراگوائے میں نستور کرچنر اور کرسٹینا کرچنر، چلی میں میشلی باشلت، پیراگوائے میں فرنینڈو لوگو منڈیز بائیں بازو کی سوچ کے ساتھ اقتدار میں آئے۔
حالیہ دو تین سالوں کے دوران بھی انتخابات میں بائیں بازو کے رہنماوں کی کامیابی دیکھی گئی ہے، 2021 میں نیکاراگوئے میں انتخابات کے بعد ڈینئل اورتگا نے اپنی حکومت برقرار رکھی۔ وینزویلا میں اپوزیشن کو شکست دینے کے بعد نیکولس میدورو نے ہوگو شاویز کے نظریات کو زندہ رکھتے ہوئے حکومت برقرار رکھی۔ چلی میں بائیں بازو کے حامی جوان گیبرئیل بوریچ نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے واشنگٹن کی حامی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 2020 میں ہونڈوراس میں بھی دائیں بازو کے رہنماوں کو انتخابات میں تاریخی شکست ہوئی اور صدیوں سے اس ملک میں قائم امریکی حمایت یافتہ حکومت کا دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ کولمبیا کے انتخابات نے امریکی حامی حکومتوں کی شکست کو انتہا تک پہنچادیا اور بائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
ہسپانوی اور پرتگالی زبان بولنے والے لاطینی ممالک کی مجموعی آبادی 56 کروڑ سے زائد ہے جبکہ اس خطے کا رقبہ 21 ملین مربع کلومیٹر ہے اس لئے دنیا میں ایک اہم خطہ شمار ہوتا ہے۔
امریکہ اور بحر اوقیانوس کے کنارے واقع اس خطے میں قدرتی ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں جس کی وجہ سے عالمی طاقتوں کی نظریں اس خطے پر مرکوز رہی ہیں۔ غذائی قلت کی صورت میں اس خطے سے دنیا کو غذائی اجناس فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ میٹھے پانی کے منابع بھی اس خطے میں پائے جاتے ہیں۔
برازیل میں ہونے والے انتخابات میں ڈی سلوا کی کامیابی کے بعد اس خطے میں بائیں بازو کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ میکسیکو، ارجنٹینا، برازیل، کولمبیا اور چلی میں حکومت بائیں بازو کی جماعتوں کے پاس آگئی ہے۔ اس کے نتیجے چین اور روس کے لئے اس خطے میں قدم جمانے کے لئے ماحول سازگار جبکہ امریکہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے چنانچہ دی اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ لاطینی امریکہ سے خطرات محسوس ہورہے ہیں۔ یہ خطہ مغرب سے دور ہورہا ہے۔
ذرائع کے مطابق گذشتہ سالوں کے دوران امریکہ اس خطے میں تجارت بیس فیصد تک کم ہوگئی ہے جبکہ چین نے خطے کی درآمدات میں اپنا حصہ بارہ فیصد تک بڑھادیا ہے اور چین موجودہ دور میں جنوبی امریکی ممالک سے سب بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اگرچہ امریکہ چین کے تجارتی نفوذ کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن اس کا کوئی مناسب متبادل بھی پیش کرنے میں ناکام ہے۔
لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کا روایتی طریقہ بدل گیا ہے اور اس کی جگہ جدید اور ماڈرن بائیں بازو کے نظریات نے لے لی ہے۔ اس وقت وینزویلا، کیوبا، بولیویا، چلی، برازیل، ارجنٹینا، کولمبیا اور نیکاراگوئے بائیں بازو کے کیمپ میں چلے گئے ہیں۔ بائیں بازو کی تحریکوں کا زور پکڑنا اور عوام کی طرف سے ان کا استقبل کئی وجوہات رکھتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم استعمار مخالف جذبات ہیں اگرچہ اقتصادی مشکلات، معاشرتی ناانصافی، حکمرانوں کے خلاف جذبات اور کوویڈ سے نمٹنے میں ناکامی جیسی وجوہات بھی شامل ہیں۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں لاطینی امریکہ کے عوام شمالی امریکہ کے بارے میں مثبت خیالات نہیں رکھتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے غیر منصافہ پابندیوں کی وجہ سے بھی عوام بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف راغب ہوگئے ہیں علاوہ ازین اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لئے ڈکٹیٹروں کی حمایت بھی ایک اہم عنصر ہے۔ ان مسائل اور وجوہات کی وجہ سے لاطینی امریکہ کے ممالک مشرق کی طرف نگاہ کرنے پر مجبور ہیں اور چین اور روس کے علاوہ ایران سے بھی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
موجودہ دور میں چین لاطینی امریکی ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ چین اقتصادی ترقی کے لئے لاطینی امریکہ میں موجود قدرتی ذخائر سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ روس بھی سیکورٹی وجوہات کی بناپر اس خطے میں دلچسپی لے رہا ہے۔
لاطینی امریکی عوام اور حکمرانوں کی امریکہ کے بارے میں منفی رائے کی وجہ سے یہ ممالک ایران سے بھی معاہدے کررہے ہیں۔ ایران اور وینزویلا کے درمیان 20 سالہ منصوبے پر دستخط اور بولیویا، نیکاراگوئے اور اکواڈور کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں بہتری سے سرمایہ دارانہ نظام مخالف اتحاد مزید مضبوط ہورہا ہے اور امریکہ اپنی خلوت گاہ کو آہستہ آہستہ کھورہا ہے۔