حضرت محمد ص کی مکمل زندگی ہر بشر کے لئے قابل تاسی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ہمیشہ سادگی کی بے مثال زندگی بسر کی اور تمام ذاتی اور معاشرتی معاملات میں اس بنیادی اصول کی پابندی کی۔ جو ہم سب کے لئے دعوت عمل ہے۔
شیئرینگ :
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عالمین کے لئے رحمت اور بشریت کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا۔ ‘‘لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا’’ (سورہ احزاب، آیت21)
مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔
کلام الہی سے واضح ہو گیا کہ عالم اسلام پر لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاسی اور پیروی کرے اور یہی پیروی مسلمانوں کی سعادت اور کامیابی کی دلیل بھی ہے۔ ذیل میں اس عظیم اسوہ حسنہ یعنی پیغمبر اسلام سرکار ختمی مرتبت جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گلستان سیرت کے چند پھول پیش ہیں۔
1۔ بے خوف عقائد کا بیان
قرآنی آیات اور روایات سے واضح ہے کہ کفار و مشرکین کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے عقائد بلا کسی خوف و ہراس کے بیان فرمائے۔ ظاہر ہے جو اللہ کا سچا نبی ہو ، جس کا دین حق ہو ، جسکی شریعت انسانی فطرت کے عین مطابق اور وحی الہی سے جس کی تائید ہو وہ بھلا کیوں کسی سے خوف زدہ ہو گا۔ روایت میں ہے کہ مشرکین کے کچھ سردار آپؐ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپؐ ہمارے خداؤں کی پیروی کریں اور ہم آپؐ کے خدا کی پیروی کریں گے، ایک سال آپؐ ہمارے خدا کی پرستش کریں اور اگلے سال ہم آپؐ کے خدا کی عبادت کریں گے، اگر ہمارے خدا کی پرستش بہتر ہو گی تو آپؐ کو بھی فائدہ پہنچے گا اور اگر آپؐ کے خدا کی عبادت بہتر ہو گی تو ہمیں بھی فائدہ پہنچے گا۔ یہ سننا تھا کہ آپؐ نے واضح طور پر فرمایا: ‘‘میں اللہ کے برابر کسی کو سمجھوں (ممکن نہیں )اس (تصور)سے اسکی پناہ چاہتا ہوں ۔
آپؐ کو یقین تھا کہ ان کے خداؤوں کے انکار کے نتیجہ میں دشمنیاں اور پریشانیاں ہوں گی لیکن اس کے باوجود آپؑ نے بلا خوف اپنے عقائد بیان کئے۔
2۔ حدود الہی کی نفاذ میں ثابت قدمی
فتح مکہ کے موقع پر مکہ کے ایک نامور اور باعزت گھرانے کی ایک خاتون نے چوری کی، جرم ثابت ہو گیا اور اس نے حضورؐ کے سامنے اقبال جرم بھی کر لیا تو آپؐ نے اس پر الہی حد جاری کرنے کا حکم دیا تو کچھ لوگ آپؐ کی خدمت میں آئے اور سزا دینے سے روکنے لگے اور اس چور عورت کی سفارش کرنے لگے تو حضورؐ نے فرمایا: ‘‘تمہاری سفارش کو قبول کرنا میرے لئے محال ہے، کیا تم چاہتے ہو کہ ہم اسلامی قانون کو تعطیل کر دیں ؟ اگر یہی عورت کسی غریب یا معمولی گھر انے کی ہوتی تو تم سب کہتے کہ اس پر حد جاری کی جائے ۔ ایک غریب چوری کرے تو اس کو سزا دی جائے اور ایک مالدار چوری کرے تو اس کو چھوڑ دیا جائے کیوں کہ اس کے خاندان کی عزت نیلام ہو جائے گی؟ خدا کے قانون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ’’ آپؐ نے اس کو سزا بھی دی۔
اگر اسوہ حسنہ کی یہی سیرت ہمارے پیش نظر رہے اور ہم سب اس پر عمل کرنے لگیں تو ہمارا سماج محمدی سماج بن جائے گا۔ سب سے بڑی مشکل دور حاضر کی یہی ہے کہ اگر کسی غریب نے جرم کیا تو اس کے خلاف سب بولتے ہیں لیکن اگر کسی دولت مند اور نامور گھرانے کی فرد نے جرم کیا تو اس پر مصلحت کا میک اپ اور خوف دنیا کا ماسک لگایا جاتا ہے۔ اگر یہی مشکل خواص میں مشاہدہ ہوتی ہے تو افسوس مزید ہو جاتا ہے۔
3۔ زندگی میں سادگی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بشریت کے لئے نمونہ عمل تھے لہذا آپؐ عام انسان جیسی زندگی بسر کرتے تھے۔ ظاہر ہے دنیائے فانی کی فانی لذتوں کے اسیر اور بے عمل کی زبان سے نکلی بات مخاطب کے پردہ سماعت سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے اور ہوا میں فنا ہو جاتی ہے لیکن جو بات اخلاص و عمل کے ساتھ ہوتی وہ قلب میں نقش ہو جاتی ہے اور مخاطب کو عمل پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔
جیسا کہ مشہور ہے کہ جاڑے کی سرد رات میں بو علی سینا اور ان کے شاگرد بہمن یار ایک کمرے میں انگیٹھی کے پاس آرام کر رہے تھے ، شاگرد نے استاد سے کہا کہ آپ نبوت کا دعویٰ کریں ہم اور ہمارے ساتھی آپ کے حامی ہوں گے۔ بو علی سینا شاگرد کی بات سن کر خاموش رہے ، کچھ دیر گذرنے کے بعد شاگرد سے کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے پانی لے آؤ تو بہمن یار نے کہا استاد باہر برف گر رہی ہے ، باہر جانا خطرناک ہے ، فی الحال پیاس برداشت کر لیں ، ویسے بھی موسم سرد ہے۔ بو علی سینا خاموش رہے کچھ نہیں بولے لیکن جب اذان صبح کا وقت آیا اور موذن کی صدائے اذان فضا میں گونجی تو بو علی سینا نے اپنے شاگرد سے کہا دیکھ رہے ہو اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دنیا سے گذرے ہوئے کئی صدی ہو گئی ، اس موذن کے سامنے نہ نبیؐ ہیں اور نہ ہی اس نے ان کو دیکھا ہے لیکن اس موسم میں بھی راہ اطاعت میں ثابت قدم ہے۔ تم ہم سے کہتے ہو کہ ہم اعلان نبوت کر دیں اور اپنی حمایت کا وعدہ کر رہے ہو جب کہ ابھی کچھ دیر پہلے تم سے میں نے خود پانی مانگا تو تم نے بہانہ کیا اور نا فرمانی کی۔ جان لو کہ یہ نبوت الہی منصب ہے اور اللہ نے جسے چاہا عطا کیا۔
جناب عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ ایک دن اجازت لے کر میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھا کہ آپؐ ایک معمولی فرش پر آرام فرما رہے ہیں اور وہ فرش بھی اتنا چھوٹا تھا کہ آپؐ کے بدن کا کچھ حصہ زمین پر اور کچھ فرش پر اور آپؐ کا سر کھجور کی پتیوں کے تکیہ پر تھا۔ میں نے آپؐ کو سلام کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپؐ اللہ کے رسول ہیں اس کے باوجود آپؐ کی زندگی اتنی معمولی ہے۔ جب کہ قیصر و کسریٰ سونے موتی کے کام کے ریشمی فرش پر آرام کررہے ہیں۔ جب آپؐ کا مقام و مرتبہ ان سے بلند ہے تو آپؐ کی زندگی اتنی معمولی کیوں ہے؟ حضورؐ نے فرمایا: انہوں نے دنیا کی لذتوں کو حاصل کرنے میں جلدی کی، جب کہ دنیا عارضی اور غیر مستحکم ہے اور اس کے فوائد فنا ہو جانے والے ہیں، لیکن ہماری خوشگوار زندگی آخرت کے لئے موخر ہے اور میں نے آخرت کے ابدی سکون و آرام کو چن لیا ہے۔
جناب ابو ذرؒ سے روایت ہے کہ ایک دن جناب سلمانؒ اور جناب بلالؒ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جناب سلمانؒ نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لیں تو آپؐ نے انہیں اس کام سے روکتے ہوئے فرمایا: ائے سلمان ! میرے ساتھ وہ برتاؤ نہ کرو جو عجم اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں ، جان لو کہ میں اللہ کا ایک بندہ ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ہمیشہ سادگی کی بے مثال زندگی بسر کی اور تمام ذاتی اور معاشرتی معاملات میں اس بنیادی اصول کی پابندی کی۔ جو ہم سب کے لئے دعوت عمل ہے۔
4۔ عفو و بخشش
دنیا کا دستور ہے کہ جس پر کوئی قہر و غلبہ کے ذریعہ ظلم کرتا ہے تو جب حالات اس کے برخلاف ہوتے ہیں تو جو کل مظلوم واقع ہوا تھا وہ آج موقع ملتے ہی انتقام لیتا ہے اور اس انتقامی کاروائی میں انسان کبھی کبھی افراط کا شکار ہو جاتا ہے اور کل کا مظلوم آج کا ظالم بن جاتا ہے۔
درود و سلام ہو رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کہ آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے شدید ترین دشمنوں کو معاف کر دیا ، یہ اور بات کہ جنکو معاف کیا تھا انھوں نے اور انکی اولاد نے آپؐ کے بعد آپؐ کے اہلبیت کو اذیت پہنچانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
صرف فتح مکہ ہی نہیں بلکہ عفو و بخشش کی لا تعداد مثالیں ہمیں آپؐ کی زندگی میں ملتی ہیں ۔
حقیقت ہے آپؐ کی مکمل زندگی ہر بشر کے لئے قابل تاسی ہے ۔ اجتماعی کاموں میں آپؐ اپنے اصحاب کا مکمل ساتھ دیتے تھے۔ ان سے مشورہ لیتے تھے، ان کی آبرو کا خیال رکھتے تھے۔
خدا ہمیں اپنی ، اپنے رسولؐ اور اپنی حجت کی معرفت اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔