امام حسن علیہ السلام کی عظمت ان سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؑ کی شان میں قرآن میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں جن میں آیت تطہیر، آیت انما ولیکم، آیت مباہلہ، آیت قربیٰ، سورۃ کوثر، اور سورۃ ھل اتیٰ زیادہ مشہور ہیں۔ اسی طرح بہت سی احادیث محمد مصطفٰی ﷺ بھی تواتر سے ہیں۔
شیئرینگ :
تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی
رحلٍ اخلاق پر قرآن مشیت ہیں حسنؑ
کوثر صدق کا میخانہ عصمت ہیں حسنؑ
سوز اخلاق لئے ساز حزاقت ہیں حسنؑ
نفس حق، نغمہ توحیدٍ بلاغت ہیں حسنؑ
حضرت ختمی مرتبتؐ کے نواسے اور حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے دلبند حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کرکے ملت اسلامیہ کو نہ صرف جنگ کی عظیم ہولناکیوں سے محفوظ رکھا بلکہ اپنی صلح کے دُور رَس نتائج کی وجہ سے اپنی سیاسی بصیرت و فراست کی فوقیت کا لوہا بھی منوایا۔ ملت جعفریہ اس موضوع کے منظر و پس منظر کو بڑے فاضلانہ طور پر مطالعہ کریں، صلح امام حسنؑ کے بہترین نتائج سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے۔ صلح حسنؑ کے بارے میں اپنوں کی اکثریت میں غلط فہمی پائی جاتی ہے جس کا مطالعہ خصوصاً آج کی دنیا میں حقیقتٍ صلح سے واقف ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔
امام حسن علیہ السلام کی صلح کی کامیابیاں جنگ کی فتوحات سے کم نہیں۔ فتح اسے نہیں کہتے جس میں قتل ہی کر دیا جائے بلکہ فتح اسے کہتے ہیں جس میں اہداف، ارادے و مقاصد عبور کئے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صلح اور جنگ میں بہت معمولی فرق ہوتا ہے۔ دونوں میں مقصد کسی اُلجھے ہوئے مسئلہ کو سلجھانا ہوتا ہے۔ سلجھانے کا طریقہ البتہ موقع کے لحاظ سے بدل جاتا ہے۔ عام تجربہ و رائے یہ ہے کہ کبھی کبھی جنگ سے زیادہ صلح ضروری ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ میں نہ سمجھوں تو بھلا کیا کوئی سمجھائے مجھے۔ یہ واضح ہے کہ صلح امام حسنؑ سے جنگ سے زیادہ مقصد حاصل ہوا ہے۔ صلح اگر روشن خیالی اور اہداف کو مدّنظر رکھی جائے تو جنگ سے زیادہ فیصلہ کن ہے۔ کیونکہ ہر بات اپنے وقت پر درست ہوتی ہے۔ صلح بھی اپنے محل پر کامیاب رہی۔
معاویہ لعنت اللہ کی اسلام دشمنی اور اہلبیت علیہم السلام کے خلاف شازشیں امام حسن علیہ السلام کے سامنے تھیں۔ 40 ہجری میں حضرت امیر المومنینؑ کی زندگی کا چراغ گل ہوا تھا جس کے پیچھے معاویہ لعنت اللہ کا ہاتھ تھا۔ معاویہ ان سے برسرٍ پیکار تھا۔ حالانکہ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ نے ایک فوج جمع کی تھی کہ وہ معاویہ کی خفیہ ریشہ دوانیوں کا راز فاش کریں۔ امام حسنؑ کے سامنے یہ سب کچھ موجود تھا۔وہ بنو امیہ کی خصوصیات سے بخوبی واقف تھے۔ آپؑ نے اپنے ارد گرد معائنہ کیا تو دیکھا تو آپ کو اعوان و انصار کی کمی نظر آئی۔
یہ قابل ذکر امر ہے کہ عثمان کے دورٍ خلافت سے ہی افواجٍ اسلام مجاہدانہ نیت سے جنگ میں شریک نہ ہوتی تھیں۔ ان کا نظریہ بدل کر لُوٹ مار اور دولت کی جانب رغبت ہوگئی تھی۔ سونے چاندی کے چند سکّوں کی چمک ایمان تھا۔ وہی زندگی کا وظیفہ و ہدف تھا۔ دوسری طرف حالات کی تدبر و تفکر سے مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام کے پاس مال و دولت نہ فوج اور نہ ہی وفادار و دیانتدار اصحاب تھے۔ آپؑ اپنی فوج کو لوٹ مار کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ اب حالت یہ تھی اور آسانی سے مشاہدہ کیا جا سکتا تھا کہ اسلام نے بہت دلوں میں پوری طرح جگہ نہ کی تھی۔ آپؑ کے پاس فوج کی کمی، ان میں خون سے کھیلنے کے بجائے، تلواروں کی جھنکار کے بدلے سکّوں کی آواز نے انہیں اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ حالانکہ امام حسنؑ ان کو مخاطب کر ان کی برائیوں اور کمزوریوں کو بتاتے تھے۔ ان کے سامنے ان کی بزدلی کی داستانیں سناتے تھے۔ ان کی بیوفائی کا تذکرہ کرتے، ان کی عرب حمیت کو جوش میں لاتے تھے لیکن دلوں پر دولت کا قبضہ ہو گیا تھا۔ امام حسنؑ نے ایسا عمل اس لئے کیا کہ حجت تمام ہو جائے اور تاریخ کے صفحات گواہ رہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے جنگ سے منہ نہیں موڑا۔ شیر خدا حیدر کرار کے فرزند نے ہر ممکن کوشش کی۔ واضح طور پر تحریر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ جنگ سے نبرد آزمائی خودکشی کے مترادف تھا۔ جنگ ناممکن ہوگیا تھا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ معاویہ کی عسکری قوت اپنے شباب پر تھی۔
اب صرف صلح کو مفید اور کارگر بنانے سے کام چل سکتا تھا اور اسی میں امامؑ کی سیاسی قابلیت کا اندازہ ہر شخص کو ہوسکتا ہے۔ اس دوران آپ کوفہ سے مدائن کی طرف کوچ کر گئے۔ مدائن اپنے محل وقوع کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ایران، عراق اور حجاز سب کچھ قریب ہی تھے۔ آپؑ نے اس مقامٍ خاص کا انتخاب اس لئے کیا کہ ساری اسلامی دنیا کے بیچ کھڑے ہو کر اپنا رُخ صاف کر دیں۔ اس سے اور کوئی بہتر جگہ نہیں ہو سکتی تھی۔ اس مقام پر ساتھ دینے والے آسانی سے جمع ہو سکتے تھے۔ امام حسنؑ نے صلح کے اسباب پر پوری طرح اپنے خطبوں کے ذریعے آگاہ کیا کہ بعد میں کچھ کہنے کی گنجائش نہ رہ جائے۔ یہ سب کرنے کے بعد صلح کے لئے آمادہ ہوئے۔ ایسا کیا لیکن اسلام آپؑ کے سینے سے لگا ہوا تھا۔ امامت کا تاج سر پر تھا۔ قرآن آپ کے قلب کی گہرائیوں میں تھا۔ اور اپنی نزع کی آخری سانسوں میں امام حسنؑ نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا وصی اور ولی مقرر کیا۔
یہ ان باتوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے کہ لوگ صلح چاہتے تھے۔ ہر طرف سے صلح کی آواز بلند ہوئی۔ مسلمانوں کو خون بہانا مناسب نہیں تھا۔ لوگ زندگی چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں جو مُٹھی بھر مدد گار تھے وہ بھی جنگ میں ختم ہو جاتے اور جنگ میں شکست کا نتیجہ بھیانک ہوتا کہ معاویہ لعنت اللہ امام حسن علیہ السلام کو مجبور کر سکتا تھا کہ اس کی بات مانیں۔شرائطٍ صلح امام حسنؑ کی جانب سے پیش ہوئے۔ معاہدے کی شرطیں جامع اور انتہائی سیاست دانی اور فکر عمیق پتہ دیتی ہیں۔ اور ایک بات زیر غور ہونے چاہئے کہ جو صلح کی شرطیں پیش کر کے منوا سکے وہی فاتح خیبر و خندق کا فاتح پسر ہے۔
بحکم حق کہیں پر صلح کر لیتے ہیں دشمن سے
کہیں پر جنگ خاموشی جوابٍ سنگ ہوتی ہے
زمانہ یہ سبق لے فاطمہ کے دل کے ٹکڑوں سے
کہاں پر صلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے
25 ربیع الاول، 41 ہجری کو کوفہ کے قریب مقام انبار میں فریقین کا اجتماع ہوا اور صلح نامہ پر امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے دستخط ہوئے اور گواہیاں ثبت ہوئیں۔ (نہایتہ العرب فی معرفہ انساب العرب، صفحہ 80)
تکمیل صلح کے بعد امام حسن مجتبٰی منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا: "اے لوگو! خدائے تعالٰی نے ہم میں سے اوّل کے ذریعے سے تمھاری ہدایت کی اور آخر کے ذریعہ سے تمہیں خونریزی سے بچایا۔ معاویہ نے اس امر میں مجھ سے جھگڑا کیا جس کا میں اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی نسبت اس امر کا ترک کر دینا بہتر سمجھا۔ تم رنج و ملال نہ کرو میں نے حکومت اٍس نااہل کو دے دی اور اس کے حق کو جائے ناحق پر رکھا۔ میری نیت اس معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے۔ (تاریخ خمیس، جلد 2، صفحہ 325)
امام حسن علیہ السلام کی عظمت ان سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؑ کی شان میں قرآن میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں جن میں آیت تطہیر، آیت انما ولیکم، آیت مباہلہ، آیت قربیٰ، سورۃ کوثر، اور سورۃ ھل اتیٰ زیادہ مشہور ہیں۔ اسی طرح بہت سی احادیث محمد مصطفٰی ﷺ بھی تواتر سے ہیں۔ آپؑ کو جوانان جنت کا سردار کہا، حسنؑ مجھ سے ہیں اور میں حسنؑ سے ہوں، اپنی خنکی چشم اور جگر کا ٹکڑا بتایا۔ آپ بچپن سے تربیت رسولؐ، علیؑ و فاطمہؑ میں رہے اور طفلی میں ہی لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے تھے۔ "صلح حسنؑ" آپ کا بڑا کارنامہ ہے جس سے مسلمانوں کی خانہ جنگی اور خون و خرابہ کا سد باب ہوا اور نقاب ملوکیت الٹ کر حق و باطل آشکارہ کیا۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امام حسن علیہ السلام انسان کی حیات، عجز کی کائنات، سبب نجات، آبروئے رسالت، کمال امامت، اوج ولایت، سدرہ ہدایت، خلق حسن کی دلکشی، اخوت کی شبنمی، حکمت کی غنچگی، عرفان کی چاندنی، زمزم امراضٍ روحانی، عفو و درگزر کی جولانی، صفاتٍ یزدانی، اوصاف حمیدہ کا گلدان، خدا کا خاص ارمغان، حسنٍ عمل کا میزان، انسانیت کا ارمان، جزالت کی شان، ہدایت کی آن، محکم ایقان، آپؑ ہیں عاجزی کی آب و تاب، امن کا آفتاب، سخاوت کا ماہتاب، دل ملوکیت کا اضطراب، جوانان جنت کے سردار، صلح کا اوتار، امن کے کردگار، ضاعی خالق کے شاہکار، اخوت کے آبشار، نفاق کے لئے ضرب تلوار، عزم کا کہسار، مکارم اخلاق کا نشان، کعبہ صدق و صفا، طور کی تنویر، فخر قرآن جلی، شان خدا، رشک حرم، صبر و تحمل کا کمال:
یہ بشر ان کے سبب اشرف مخلوق ہوا
روبرو ان کے، خضر علم کا مرزوق ہوا
ان سے ہے دیں کی عزت انھیں حرمت کہئے
فرق انسان یہ برستی ہوئی رحمت کہئے
مروان حاکمٍ مدینہ نے معاویہ کی ہدایت پر امام حسن علیہ السلام کو جعدہ بنت اشعث سے زہر دلوایا:
طشت میں گرنے لگا قلب جو ٹکڑے ہوکر
ہو گیا راہی فردوس علیؑ کا دلبر
مبتلائے غم و اندوہ ہوئے جن و بشر
خانہ ختم رسل میں ہوا برپا محشر
نوحہ کرتی تھیں یہ زینبؑ کہ دہائ اماں
بھائی بھائی میں ہوئی ہائے جدائی اماں
آپؑ کی شہادت 28 صفر المظفر 50 ہجری کو واقع ہوئی۔ (تاریخ ابو الفداء، جلد 1، صفحہ 182؛ عقد الفرید، جلد 2، صفحہ 211؛ روضتہ المناظر، جلد 11، صفحہ 133؛ تاریخ خمیس، جلد 2، صفحہ 328)
امام حسنؑ کی وصیت کے مطابق انھیں سرور کائناتؐ کے پہلو میں دفن کرنے کے لئے جنازہ لے جایا گیا لیکن بنی امیہ خصوصاً مروان وغیرہ نے پہلوئے رسول ﷺ میں دفن ہونے سے روکا۔ اُس وقت حضرت عائشہ بھی خچر پر سوار ہو کر آپہنچیں اور اپنے گھر میں دفن ہونے سے روک دیا (روضتہ المناظر، جلد 11، صفحہ 133) یہاں تک بات بڑھ گئی کہ آپ کی تابوت پر تیر کی بارش کر دی نتیجتاً آپؑ کی تابوت میں ستر تیر پیوست ہوئے تھے (تاریخ اسلام، جلد 1، صفحہ 28) آخر کار ناچار نعش مبارک کو جنت البقیع میں لاکر دفن کیا گیا۔ (تاریخ کامل، جلد 3، صفحہ 182) آپؑ کی شہادت 47 سال کی عمر مبارک میں واقع ہوئی۔