اہل بیت عظام ؑ سے وابستہ لوگ ہمیشہ سے نبی اکرم ؐ کے حوالے سے ہر بات اور ہر حدیث کی تصدیق و تائید اہل بیت ؑ سے ہی لیتے چلے آرہے ہیں۔ تاریخی حقائق ہوں یا تاریخی واقعات کی اصلیت وہ لوگ ہمیشہ اہل بیت ؑ کے موقف کو دیکھتے اور مانتے چلے آرہے ہیں۔ دینی عقائد ہوں یا شریعت کے احکام ہر معاملے میں اہل بیت ؑ کی تقلید و پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں۔
شیئرینگ :
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی
دستیاب اسلامی تاریخ میں خاتم المرسلین رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور تشریف آوری سے وصال یا شہادت کا درمیان تریسٹھ 63 سال کا فاصلہ بتایا جاتا ہے۔ جب آپ ؐ کی ولادت کی تاریخ پر بات کی جاتی ہے تو ایک جانب یہ کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں ابھی ایسے ذرائع دستیاب نہیں تھے نہ ہی سرکاری سطح پر ایسے اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی طریقہ تھا۔ تب قبائلی نظام رائج تھا لوگ لکھنے کو بُرا خیال کرتے تھے اور مضبوط حافظے کو ترجیح دیتے تھے،البتہ نسب کو یاد رکھنا اور اہمیت دینا ان کا خاصہ تھا۔ ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود بھی امت کا ایک بڑا حصہ یا اکثریتی طبقہ اس بات پر متفق ہے کہ آپؐ کی ولادت عام الفیل ربیع الاول بروز پیر بارہ تاریخ کو مکہ مکرمہ میں ہوئی عیسوی تاریخ کے مطابق ۲۲ اپریل ۱۷۵ء یا 20 اپریل ۱۷۵ ء میں ہوئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبوی دور میں صحابہ کرام نے ماہ و سال کا نظام وضع کیا پھر ہجری سال کا بھی آغاز ہو گیا جس کے بعد تمام تر واقعات اور مناسبات اسی ہجری سال کی تاریخوں کے مطابق قلمبند کی جاتی رہیں۔ رسول اکرم کے زمانے میں ہونے والے غزوات‘ معرکوں‘ جہادی سرگرمیوں اور جنگی لزائیوں کے ایام اور تواریخ بھی نوٹ ہوتی رہیں۔ صلح حدیبیہ ہو کہ یوم مواخات۔ ہجرت مکہ ہو کہ فتح مکہ۔ آخری حج ہو کہ آخری خطبہ حج۔ حتی کہ عبارت وتشریح کے اختلاف کے باوجود یوم غدیر اور خطبہ غدیر کی تاریخ بھی ہماری تاریخ میں رقم ہے اور اکثریت امت نہیں بلکہ ساری امت اس پر متفق ہے۔ یعنی ۱۱ ہجری سے قبل بقولے صحابہ کرام کی محنتوں سے ایسا نظام وضع کر لیا گیا تھا اور مکی و مدنی ادوار کے تمام تر واقعات و حالات اپنی اپنی درست تاریخوں میں یاد رکھے جارہے تھے۔
اسی ترقی کے زمانے میں امت اپنی آقا و مولا اور ملجٰی و ماوٰی کے دائمی فراق سے دوچار ہوئی۔ یہ دن ایک ایسا دن تھا جو بھلائے سے بھی نہیں بھول سکتا۔ ایسا دن جس دن کا درد ہر مسلمان کے سینے میں موجود ہونا چاہیے تھا۔ جس دن کے بارے میں کسی سے تحقیق یا تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔ نبی اکرم ؐ سے جدائی کا صدمہ برداشت کرنے والے‘ نبی اکرم ؐ کا فرداً فرداً جنازے پڑھنے والے اور نبی اکرم ؐ کا لحد کے سپرد کرکے تین دن سوگ منانے والے لوگوں کو یہ المناک تاریخ کیسے بھول سکتی ہے؟؟ لیکن ایسا کیا ہوا کہ آج چودہ سو سال بعد جب ایک امتی اپنے آخری پیغمبر ؐ کے یوم ِ وصال بارے تاریخ سے سوال کرتاہے یا مورخین کی لکھی گئی تاریخ چھانتا ہے تو اُسے کبھی بارہ ربیع الاول بتائی جاتی ہے کبھی نو ربیع الاول بتائی جاتی ہے کبھی دو ربیع الاول کی بات کی جاتی ہے۔
جس طرح امت کے درمیان اپنے پیارے پیغمبر (ّص) کا یوم ولادت منانے یا نہ منانے پر اختلاف موجود ہے حتی کہ یوم ولادت منانے والے بدعتی بھی شمار کئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اس اختلاف کے باوجود یوم ولادت کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی بہانے سے منایا جاتا ہے۔ لیکن امت کے درمیان اپنے پیارے پیغمبر (ّص) کے یوم وصال کے حوالے سے اگرچہ مکمل اختلاف موجود ہے لیکن اس کے باوجود اس بات پر مکمل اتفاق موجود ہے کہ یوم وصال منانا تو بہت دور کی بات ہے یوم وصال کا تذکرہ بھی نہ کیا جائے۔ میلاد النبی ؐ منانے والوں نے کبھی وصال النبی ؐ نہیں منایا اور میلاد النبی ؐ نہ منانے والوں نے بھی وصال النبی ؐ کی محافل منعقد نہیں کیں۔ وصال النبی ؐ کے تذکرے سے اس قدر گریز میں امت نے کیا مصلحت پوشیدہ رکھی ہے؟چودہ صدیوں سے یہ راز عیاں نہیں ہو سکا۔کسی بھی شخصیت کے یوم ولادت و یوم رخصت کے حوالے سے سب سے مستند اور مصدقہ اطلاع و معلومات مذکورہ شخصیت کے والدین‘ چچاجان و چچی جان‘ دادا دادی‘ نانا نانی‘ بہن بھائیوں اور دیگر اقربا یا بچپن سے ہمسائیگی میں رہنے والے دوستوں کے پاس ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں صدیوں سے یہی درست انداز چلا آ رہا ہے کہ کسی بھی شخصیت کی انفرادی و شخصی تاریخ سے لے کر اجتماعی تاریخ لینے کے لیے سب سے پہلے مذکورہ رشتوں کے حامل لوگوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور انہی لوگوں کی بتائی ہوئی تاریخ پر اعتبار و اعتماد کیا جاتا ہے۔ ان کے بعد دیگر ساتھیوں یا دوستوں یا ہم فکروں کی رائے اور خیالات کو شامل کیا جاتا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ نبی اکرم ؐ کے گھر والوں‘ نبی اکرم ؐ کی بیٹی‘ نبی اکرمؐ کے بھائی‘ نبی اکرم ؐ کے نواسوں یعنی بیٹوں‘ نبی اکرم ؐ کی نواسیوں‘ نبی اکرم ؐ کو غسل دینے والے عزیز ترین انسان اور اس کے ساتھیوں اور نبی اکرم ؐ کو لحد کے سپرد کرنے والوں سے نبی اکرم ؐ کے وصال کے واقعے‘ وصال کی وجوہات اور وصال کی تاریخ کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جاتاحالانکہ انہوں نے میلاد النبی ؐ کی تاریخ بھی متعین و مشخص کی ہوئی ہے اور وصال النبی ؐ یا شہادت النبی ؐ کی تاریخ بھی بتائی ہوئی ہے۔
ہم صدیوں سے اسلامی معاشرے میں اس بات کا بالعموم مطالعہ کررہے ہیں اور اپنے زمانے میں بالخصوص مشاہدہ کر رہے ہیں کہ تقریباً تمام اسلامی مسالک کے علماء و اکابرین و پیروکاران اپنی پسندیدہ شخصیات چاہے وہ صحابہ کرام میں سے ہوں یا مرحوم علماء و فقہا و اکابرین اور سربراہان جماعت ہوں ان کے ایام ِ ولادت اور ایام ِ وصال و شہادت بڑے احترام اور اہتمام سے مناتے ہیں۔ یوم ولادت کے حوالے سے پھر بھی سرگرمیاں کم دیکھی جاتی ہیں یا کچھ خاص مسالک کے حوالے سے نظر آتی ہیں لیکن یوم وصال یا یوم شہادت کے حوالے سے اقدامات اور پروگرامات بڑے زور و شور سے سالانہ بنیادوں پر ہر سال منعقد ہوتے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے جلسے بھی ہوتے ہیں جلوس بھی نکلتے ہیں ریلیاں بھی برآمد ہوتی ہیں۔ کانفرنسیں اور سیمینارز بھی ہوتے ہیں۔ قسم قسم کے ناموں سے پرگراموں کے اشتہارات نشر کیے جاتے ہیں جس میں مذکورہ شخصیت یا شخصیات کے وصال یا شہادت کے واقعات بھی بیان کئے جاتے ہیں اور ان واقعات کے پس منظر بھی بیان کئے جاتے ہیں اور ان واقعات کے بعد پیدا ہونے والے ماحول کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ ان شخصیات کے ساتھ کھڑے ہونے والے یعنی حامیوں کی تعریف بھی کی جاتی ہے اور ان کے سامنے کھڑے ہونے والے یعنی مخالفین کے تذکرے بھی ہوتے ہیں۔ ان شخصیات کے وصال یا شہادت کے واقعات کے بیان کے دوران سامعین کے رونے‘ گریہ کرنے‘ آہ و بکا کرنے اور غمگین ہونے کی بے شمار ویڈیوز اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں، لیکن ہمیں وصال النبی ؐ کے تذکرے سے مزین‘ وصال النبی ؐ کے واقعات بیان کئے جانے‘ وصال النبی ؐ کے حوالے سے کانفرنسیں منعقد کرنے‘ وصال النبی ؐ پرصحابہ کرام ؓ و اہل بیت عظام ؑ کے درمیان پھیلی ہوئی افسردگی بیان کرنے‘ صحابہ و اہل بیت کے اندر وصال النبی ؐ کے اندر پیدا ہونے والے دُکھ اور درد کے بیان کرنے‘ وصال النبی ؐ پر صحابہ و اہل بیت کے تاثرات بیان کرنے‘ وصال النبی ؐ کے بعد ازواج و اولاد کی کیفیت بیان کرنے‘ وصال النبی ؐ پر صحابہ و اہل بیت کی طرف سے کہے گئے منظوم کلام کے بیان کرنے‘ وصال النبی ؐ کے پہلے تین دنوں میں صحابہ و اہل بیت کی حالت ِ غم بیان کرنے‘ وصال النبی ؐ کے بعد نماز جنازہ اور تدفین کے دوران صحابہ و اہل بیت کی اپنے آقا ؐ کے ساتھ اظہار عقیدت کے بیان اور وصال النبی ؐ کے المناک درد کے صحابہ کرام و اہل بیت ؑ عظام پر مرتب ہونے والے اثرات کے بیان کے لیے امت مسلمہ کی طرف سے کوئی سالانہ سرگرمی نظر نہیں آتی۔ آخر کیوں۔؟؟
اہل بیت عظام ؑ سے وابستہ لوگ ہمیشہ سے نبی اکرم ؐ کے حوالے سے ہر بات اور ہر حدیث کی تصدیق و تائید اہل بیت ؑ سے ہی لیتے چلے آرہے ہیں۔ تاریخی حقائق ہوں یا تاریخی واقعات کی اصلیت وہ لوگ ہمیشہ اہل بیت ؑ کے موقف کو دیکھتے اور مانتے چلے آرہے ہیں۔ دینی عقائد ہوں یا شریعت کے احکام ہر معاملے میں اہل بیت ؑ کی تقلید و پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اللہ کے کلام قرآن کریم کی تفسیر ہو یا رسول اللہ کے کلام یعنی حدیث کی تشریح دونوں موضوعات میں اہل بیت ؑ کی بتائی ہوئی بات کو حجت سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کو اہل بیت ؑ نے بتایا ہے کہ اس دنیا میں آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی (ّص) کی ولادت اور تشریف آوری سترہ ۷۱ ربیع الاول کو ہوئی تھی اور اس دنیا سے وصال ۸۲ صفر المظفر ۱۱ ہجری کو ہوا تھا۔ اہل بیت ؑ کی بتائی ہوئی اس بات کے تحت یہ لوگ جہاں سترہ ربیع الاول کو میلاد النبی ؐ کے دن اپنے پیارے آقا کی تشریف آوری پر خوشیاں مناتے ہیں اسی طرح ۸۲ صفر المظفر کو وصال النبی ؐ کے دن اپنے پیارے آقا و مولا ؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے پر غم مناتے ہیں اور ایسے ہی افسردہ ہوتے ہیں جیسے پیغمبر اکرم ؐ کی اولاد‘ آل اور اصحاب ہوئے تھے۔
اس موقع پر وصال النبی ؐ کا پس منظر بھی بتایا جاتا ہے۔ وصال النبی ؐ سے قبل آخری ایام اور بیماری کے دنوں کے حالات بھی بتائے جاتے ہیں۔ وصال النبی ؐ سے پہلے پیش آنے والے حالات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ وصال النبی ؐ اور شہادت النبی ؐ کے حقائق بھی روشن کیے جاتے ہیں۔ وصال النبی ؐ کے وقت اقرباء اور خانوادے بالخصوص نبی ؐ کی لخت ِ جگر سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر طاری ہونے والے غم کی کیفیت بھی بیان ہوتی ہے۔ وصال النبی ؐ کے بعد تجہیز و تکفین اور غسل و جنازے کی تفصیلات بھی بیان ہوتی ہیں۔ ان امور میں شریک ہونے یا نہ ہونے والے طبقات کے بارے میں بھی گفتگو کی جاتی ہے۔ اور وصال النبی ؐ کے بعد اس جدائی کی نتیجے میں صحابہ کرام و اہل بیت عظام کی زندگیوں اور اسلامی معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے بھی تاریخی واقعات اور حقائق موجودہ امتیوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔
چودہ سو سالوں سے میلاد النبی ؐ اور وصال النبی ؐ منانے یا منانے کے اختلاف کے باوجود امت کی قطعی اکثریت میلادالنبی ؐ نہیں مناتی اور کسی حد تک منع کرتی ہے۔ اسی طرح امت کی قطعی سے بھی زیادہ اکثریت وصال النبی ؐ نہیں مناتی اور ساتھ ساتھ وصال النبی ؐ منانے سے مکمل حد تک منع کرتی اور روکتی ہے۔ چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود آج بھی ہر روشن فکر‘ بیدار مغز‘ غیر جانبدار اور کائنات کی سب سے عظیم ترین شخصیت کی امت میں شامل انسان اس شخصیت کی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں جاننا بھی چا ہتا ہے اور اس عظیم شخصیت کی خوشی پر خوش اور غمی پر غمگین ہونا چاہتا ہے۔ مگر نہ جانے کب میلاد النبی ؐ اور وصال النبی ؐ سے گریز کے سربستہ راز امت پر کب کھلیں گے۔