خطے میں ایران کی بڑھتی طاقت کا امریکی سابق صدر کا اعتراف
جارج ڈبلیوبش نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران استقامتی محاذ اور صیہونی حکومت کے درمیان جاری جھڑپوں سے متعلق ایک تجزیئے میں ان تمام واقعات کو ایران کے اثرو نفوذ کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا محرک ایران ہے کہ جس نے اسرائیل کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔
شیئرینگ :
امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیوبش نے استقامتی محاذ اور صیہونی حکومت کے درمیان حالیہ جھڑپوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر نفوذ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جارج ڈبلیوبش نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران استقامتی محاذ اور صیہونی حکومت کے درمیان جاری جھڑپوں سے متعلق ایک تجزیئے میں ان تمام واقعات کو ایران کے اثرو نفوذ کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا محرک ایران ہے کہ جس نے اسرائیل کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔
امریکہ کے سابق صدر نے ایران کے اثرونفوذ کو عالمی امن کے لئے خطرناک بتایا اور کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران کے تعلق سے بہترین روش یہ ہے کہ ہم اس چیز کو سمجھ لیں کہ ایران عالمی امن کے لئے خطرناک ہے، بش نے کہا کہ ایران نے لبنان، شام اور یمن میں جاری انتہا پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ایران کا مقصد اپنے اثرو نفوذ کو فروغ دینا ہے۔
جارج بش نے کہا کہ جو بھی سمجھوتہ ہو اس میں ایران کی ایٹمی توانائی کے علاوہ مغربی ایشیا میں ایران کے نفوذ کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ، بش کا کہنا تھا کہ سب یہ بات جانتے ہیں کہ ہرقسم کے سمجھوتے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے اتحادیوں کے تحفظ اور استحکام کے لئے ایران کی مہم جوئی کے خطرات کو اپنے پیش نظر رکھیں۔
بش نے دوریاستی راہ حل کو موجودہ صورتحال میں انتہائی دشوار قرار دیا اور کہا کہ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ تشدد نہ ہو، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم جس چیز کا مشاہدہ کررہے ہیں وہ ایران کا نفوذ ہے، کہ جس نے اسرائیل کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے اور(ٹرمپ کے دور میں ہونے والے) ابراہیم پیکٹ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔