شہید جنرل قاسم سلیمانی سے متعلق مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کا خصوصی انٹرویو
وہ ایک انقلابی ذہن جو ہر درد من مسلمان اپنے اندار رکھتا ہےاور وہ چاہتا ہے کہ سامراج کا مقابلہ کرنے کہ لئے کوئی نا کوئی راستہ اختیار کرے، ان کی کوشش ایک طرف فلسطینی کے مظلوم مسلمانوں کے لئےدوسری طرف خطوں میں امریکی و سامراج کے لیے روکاٹ بنے والے کے طور پر یاد رکھی جائے
شیئرینگ :
معروف اہلسنت عالم دین علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان سے ہے اور وہ اسوقت جے یو پی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں۔ علامہ قاضی احمد نورانی کا شمار پاکستان میں اتحاد بین المسلمین اور فلسطین کاز کیلئے کام کرنیوالی چیدہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطین فاؤنڈیشن کی سرپرست کمیٹی میں بھی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ وہ اس سے قبل جے یو پی کراچی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
اسلام ٹائمز: خطے میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف شہید ققاسم کی پالیسی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: دوسری برسی ہےشہید قاسم سلیمانی کی اور 20 23 سال گزار ان میں شہیدقاسم سلیمانی انسانی مددگار کے طور پر سامنے آئے۔جنہوں نے دنیا میں امریکی سامراج کا مقابلہ کرنے کے لئےجتنی تنظیم ہے ان کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔خصوصی انہوں نے شام کی خانہ جنگی میں کمزوہ کے سامنے دیوار بن کر کام کیااور وہ امریکہ و کفر کی نظر میں کاٹتے رہےبلاخر ان کو دو سال پہلے ظلم کے ساتھ شہید کردیا گیا۔جنرل قاسم سلیمانی ایک فراد کا نام نہیں ہےبلکہ ایک ذہن کا نام ہے وہ ایک انقلابی ذہن جو ہر درد من مسلمان اپنے اندار رکھتا ہےاور وہ چاہتا ہے کہ سامراج کا مقابلہ کرنے کہ لئے کوئی نا کوئی راستہ اختیار کرے، ان کی کوشش ایک طرف فلسطینی کے مظلوم مسلمانوں کے لئےدوسری طرف خطوں میں امریکی و سامراج کے لیے روکاٹ بنے والے کے طور پر یاد رکھی جائے گی اگر امریکہ یہ سمجھتا ہےکہ شہید قاسم سلیمانی و ان کے ساتھوں کو شہید کرنے سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تو یہ امریکہ کی بھول ہےایسے لوگ ایک تحریک ہوکرتے ہےاور ان سے پیچھے رہ جانے والے اس تحریک کو آگے بڑھتے ہےاور یہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے اور آگے بڑھتی رہے گی اور جب بھی شہید قاسم کا نام لیا جائے گا کفر میں لرز ہوگا۔
اسلام ٹائمزمشرقی وسطی میں شہید قاسم سلیمانی کی پالیسی کتنی کامیاب رہی؟
جواب:مشرقی وسطی و مشرقی بعید کے حالات مختلف ہے،پانچ سالوں میں مشرقی وسطی میں عالمی کفر نے اپنے پنجے گاڑنے کے لئےدجالی میڈیا کو استعمال کیا ہے اور نوجوانوں کوحیاء سوس و اخلاق سوس پر آمدکرنے کی کوشش کی ہےاور ایسی ہی مشرقی بعید میں ہوا گذشتہ 20 25 سالوں میں دنیا بھر کی فحش فلم کو عرب زبان میں ڈبنگ کرکے عرب مملک میں پھلایا گیاعرب نوجوانوں کی جہاد کی فکر کو دبایا گیااور شہید قاسم سلیمانی و ان کی تحریک کے لوگ اس سامراج طاقتوں کے سامنے مصبوط دیوار بن کر کھڑے ہوئے۔شام کے علاقہ میں انہوں نے اہم کاموں کو انجام دیااور خصوصی دنیا کہ سب سے مظلم خطے فلسطین میں عزہ میں جو انہوں نے کمزوہ کو مدد فراہم کی وہ ایک تاریخ کارنامہ ہےاور ہم سمجھتے ہیں ان کہ اس کام سے مظلم فلسطینوں کی تحریک مصبوط سے مصبوط تر ہوئی اور آج بھی فلسطینی کا نوجوانوں ان کو اپنا ہیرہ سمجھتا ہے۔
اسلام ٹائمز:فلسطینی مقاومت تحریکوں کو اسرائیل کے خلاف ایک کرنے کے لئے کتنا اہم کردار ادا کیا؟
جواب:ایک ووقت ایسا تھا 2001 2003 جب فلسطینی کی تتظیم دست گربیان تھی اور لبنان سے جو ان کو مدد ہورہی تھی اس میں بھی اختلاف موجود تھااور حماس حزب اللہ و دیگر تنظیموں میں آپس میں رابطہ نہیں تھالیکن جنرل قاسم سلیمانی و ان سے پہلے لوگوں کی کوششوں سےایک تبدیلی آئی اور حماس ، حزب اللہ صرف ایک گروہ یا جماعت کی نمایندہ نہیں رہی بلکہ وہ عالم اسلام کی نمائندہ بن کر پیدا ہوئی ورنہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب حماس کہ سربراہ شیخ یس تھےاور لوگ ایک دوسرے کے قریب آنا پسن نہیں کرتے تھےپھر تبدیلی پیدا ہوئی اور آپ نے دیکھ 2006 میں کسی طرح اسرائیل کو زلالت و شکت کا سامنا کرنا پڑااور یہ تحریک آگے بڑھ رہی تھی اور آج بھی عزہ پر بمباری ہوئی ہےتو ہم کو شہید قاسم سلیمانی یاد آرہے ہے۔
اسلام ٹائمز:اس کی کیا وجہ ہے جناب اسماعیل ہینہ شہید قاسم کو شہید القدس کہتے ہے؟
جواب:ناصرف اسماعیل ہینہ بلکہ مقاومت تحریک کا ہر فردیہ جنتا ہے کہ شہید قاسم کی کوششوں سے یہ تحریک مصبوط سے مصبوط تر ہوئی ہےاور یقین شہید قاسم شہید القدس ہےشہید اسلام ہےاور ان کے کارنامہ یاد رکھے جائے گے۔
اسلام ٹائمز:شہید قاسم سلیمانی نے جو لاتنی امریکہ کو سامراج کہ مقابلہ کھڑا کیا ہے اس حوالہ سے آپ کی کیا سمجھتے ہے؟
جواب:شہید قاسم نے دنیا بھر میں رابطہ کیےاصل میں ان کی تربیت ایران کی اس قائدنے کی تھی جودنیا بھر میں قائدہ بن کرابھری اور قاسم سلیمانی اس کے سپاہی تھےوہ ایک جنرل تھے مگر ایک سپاہی بن کر رہے اور انہوں نے اس ہی تربیت کو آگے بڑھایاجس کی وجہ سے مختلف خطوں میں مقاومتی تحریک بنی اور انہوں نے غیر مسلمان مظلومی تحریکوں کے لئے کام کیاان کی مدد صرف ایک مذاہب کہ لئے نہیں تھی اس لئے وہ ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھرےاور مظلومی کا ایک سہار بن کر ابھرے۔
اسلام ٹائمز:کیا زندہ قاسم سلیمانی شہید قاسم سلیمانی سامراج کے لئے خطرہ ہے؟
جواب:مقاومت تحریکوں کہ سپاہی کبھی بھی کسی حادث کا شکار ہونے کہ بعد مٹتے نہیں ہے بلکہ ان کی تحریک نیاء انداز سے سامنے آتی ہے اور ان کا مشن جاری ہے اور ہر وہ سپاہی جو کفر کے سامنے کھڑا ہے وہ ان کا سپاہی ہے اور اس کا مشن جاری ہے