ملک کے مختلف شعبوں میں عوام کے کردار پر یقین رکھتے ہیں
انعام اللہ سمنگانی نے گزشتہ شب سحر ٹی وی کی افغان سروس کے پروگرام چراغ سرخ میں وسیع البنیاد اور جامع حکومت کے قیام، علاقائی ممالک اور دنیا کے ساتھ تعلقات، خواتین کے حقوق، افغان عوام بالخصوص خواتین کی تعلم سے جڑے مسائل اور حالیہ اوسلو اجلاس کے بارے میں گفتگو کی۔
شیئرینگ :
طالبان حکومت کے ترجمان مفتی انعام اللہ سمنگانی نے دوٹوک لفظوں میں کہا ہے کہ طالبان انتظامیہ جامع اور وسیع البنیاد حکومت کی اُس تعریف کا خود کو پابند نہیں سمجھتی جو عالمی برادری کے پیش نظر ہے۔
انعام اللہ سمنگانی نے گزشتہ شب سحر ٹی وی کی افغان سروس کے پروگرام چراغ سرخ میں وسیع البنیاد اور جامع حکومت کے قیام، علاقائی ممالک اور دنیا کے ساتھ تعلقات، خواتین کے حقوق، افغان عوام بالخصوص خواتین کی تعلم سے جڑے مسائل اور حالیہ اوسلو اجلاس کے بارے میں گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی نئی حکومت خود کو جامع اور وسیع البنیاد حکومت کی اُس تعریف کا پابند نہیں سمجھتی جو عالمی برادری پیش کر رہی ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ اس وقت جامع اور وسیع البنیاد حکومت کے تعلق سے بیرونی دباؤ سیاسی محرکات کا حامل ہے اور ہم ملک کے مختلف شعبوں میں عوام کے کردار پر یقین رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں اچھے اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔
انعام اللہ سمنگانی نے کہا کہ طالبان حکومت، حکومتی دائرے کو مزید توسیع دینے کے درپے ہے تاہم ممکن ہے کہ عالمی برادری کے ذہن میں وسیع البنیاد اور جامع حکومت کا کچھ اور تصور ہو۔
مفتی سمنگانی کا کہنا تھا کہا طالبان حکومت اس وقت ملک کے سرکاری دفاتر کو فعال بنانے کے لئے کوشاں ہے اور ساتھ ہی نجی سیکٹر کو بھی دوبارہ زندہ کرنے اور اسکی مدد کے درپے ہے تاکہ اس ملک میں پہلے سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم ہو سکیں۔
طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت افغان عوام کو معیشتی بدحالی اور فقر و غربت کا سامنا ہے اس لئے ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کو فعال بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کو بیرونی سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے۔
انعام اللہ سمنگانی نے کہا کہ اس سال گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ طالبان حکومت نے بیرونی امداد کے بغیر اندرونی وسائل پر تکیہ کرتے ہوئے سال کا بجٹ تیار کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے حکومت کا ۷۵ فیصد بضت فراہم کرتے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے دعوا کیا کہ اس وقت طالبان حکومت سالانہ بجٹ کے سلسلے میں اپنے پیروں پر کھڑی ہے اور وہ بیرونی اور غیر ملکی امداد کے درپے نہیں ہے۔
طالبان کے رہنما نے سلامتی اور اقتصاد کو لازم و ملزوم قرار دیا اور کہا کیا کہ گزشتہ حکومت میں مذکورہ دو شعبوں میں بڑی مشکلات منجملہ دفتری بدعنوانیاں تھیں۔ انہوں نے دعوا کیا کہ اب گزشتہ دور کے برخلاف عالمی برادری یہ تسلیم کر چکی ہے کہ افغانستان میں سلامتی کو یقینی بنا دیا گیا ہے اور اقتصادی مشکلات بھی برطرف ہو گئی ہیں۔
سحر افغان ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے سینیئر رہنما نے کہا کہ اس وقت غیر ملکی بالخصوص علاقائی سرمایہ کاروں نے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے مگر سیاسی مشکلات کے باعث اب تک یہ عملی نہیں ہو سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان تمام ممالک بالخصوص علاقائی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعاون کے فروغ کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے دنیا کے کسی بلوک کا حصہ بننے کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام ممالک سے یکساں طور پر سیاسی و اقتصادی تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے نیک ہمسایگی پر زور دیتے ہوئے دیگر ممالک سے کہا کہ وہ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کی مداخلت سے پرہیز کریں۔
ایران کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے مفتی سمنگانی کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک اچھا اور بڑا پڑوسی ملک مانتی ہے اور اُس کے ساتھ نیک تعلقات کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں جبکہ ایران بھی ہمیشہ افغانستان کے مسائل کے حل کے سلسلے میں مناسب زمین ہموار کرتا رہا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات مزید فروغ پائیں۔ انہوں نے ماضی میں افغانستان کے ساتھ تعاون پر ایران کا شکریہ ادا کیا اور اُس کے ساتھ تجارتی تعلقات میں مزید توسیع پر بھی زور دیا۔
طالبان کے ترجمان نے گزشتہ حکومت کو مغربی دنیا کی آلۂ کار حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک نے ملک میں ایسی حکومت بنا رکھی تھی جس کا پچھتر فیصد بجٹ وہ خود فراہم کرتے تھے اور صدر اور کابینہ کے اراکین کے انتخاب میں بھی انہیں کا کردار ہوا کرتا تھا اور ہوا یہ کہ وہ غیر قوتوں پر تکیہ کرنے کے باعث طالبان سے پہلے ہی سرنگوں ہو گئی اور یہ ایک عبرت کا مقام ہے۔
ٹاک شو چراغ سرخ میں گفتگو کرتے ہوئے طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ اب عالمی برادری کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ افغانستان کی قسمت کا فیصلہ خود افغان عوام کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے دعوا کیا کہ طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد لوگوں کی جان مال محفوظ ہیں اور وہ ملک کا نظام بخوبی چلانے پر قادر ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی برادری گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان کی مختار کل بن کے رہی مگر وہ افغانستان کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی، اس لئے اب موجودہ طالبان حکومت کو بھی موقع دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے دنیا کے ممالک سے اپیل کی کہ وہ طالبان حکومت کو چیلنج کرنے اور اس کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کے بجائے اُسے موقع دیں۔
خواتین اور انکی تعلیم کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے طالبان رہنما نے دعوا کیا کہ طالبان نے خواتین کے لئے کام اور تعلیم کے سلسلے میں مناسب ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس وقت ایئرپورٹ، پاسپورٹ اور پولیس جیسے مراکز اور شعبوں میں خواتین کی موجودگی خاصی پُر رنگ ہے۔ انعام اللہ سمنگانی کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت آئندہ موسم بہار اور نئے سال کے آغاز سے سبھی بالخصوص خواتین کی تعلیم کی زمین ہموار کرنے کا خود کو پابند سمجھتی ہے۔
انہوں نے افغانستان کو تمام اقوام کا گھر قرار دیتے ہوئے کہا کہ طالبان حکومت ملک میں تمام اقلیتی اقوام کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے درپے ہے اور وہ اس کوشش میں ہے کہ سنی، شیعہ، سکھ اور دیگر تمام مذاہب و اقوام کے لوگوں کو مساوی طور پر انکے حقوق دئے جائیں۔
اپنی حکومت تسلیم نہ کئے جانے کے امکان کے بارے میں طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اب تک ہم نے بہت زیادہ صبر و تحمل سے کام لیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ جس طرح ہم نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو ایک طویل گفتگو اور جنگ میں اپنے موقف پر رضامند کر لیا اسی طرح دنیا والوں کے ساتھ بھی مستقبل میں اپنے منطقی موقف کی بنیاد پر تعاون کر سکیں گے۔