بحری جہازوں کی سیکورٹی کے لیے یورپی فورس کے قیام کی کوششیں
برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے پیر کی شب پارلیمنٹ میں سرکاری موقف بیان کرتے ہوئے کہا
امریکہ کے اسٹریٹیجک شریک کی حثیت سے برطانیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ایران کے حوالے سے امریکہ جیسی ہی پالیسیاں اپنائی جائیں
شیئرینگ :
امریکہ کے اسٹریٹیجک شریک کی حثیت سے برطانیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ایران کے حوالے سے امریکہ جیسی ہی پالیسیاں اپنائی جائیں۔ لیکن آبنائے ہرمز میں اپنے تیل بردار بحری جہاز کے ضبط کیے جانے کے معاملے پر اس نے جس طرح مبہم موقف اپنایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اس معاملے میں امریکہ کی جانب سے تعاون کی کوئی خاص امید نہیں ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے پیر کی شب پارلیمنٹ میں سرکاری موقف بیان کرتے ہوئے جہاں ایران سے یہ درخواست کی کہ وہ برطانوی بحری جہاز اور اس کے عملے کو فوری طور پر رہا کر دے، وہیں یہ بھی کہا کہ ہم بحری جہازوں کی سیکورٹی کے لیے یورپی فورس کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ نے اپنے اشتعال انگیز بیان میں یہ دعوی بھی کیا کہ ہم بحری جہازوں کی سیکورٹی کے لیے یورپی فورس کے قیام کی حمایت کے ساتھ اپنے بحری جہازوں کی سیکورٹی کی سطح تین سے لے جارہے ہیں۔
جیرمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ برطانیہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتا تاہم لندن انتیس جولائی کو ڈنکن نامی بحری جہاز خلیج فارس روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ میں سارا شور شرابا ایسے وقت میں کیا ہے جب اسٹینا ایمپیرو آئل ٹینکر نے بین الاقوامی آبی راہوں کو عبور کرنے سے متعلق عالمی قوانین اور پروٹوکول کی خلاف وزری کا ارتکاب کیا تھا جس کی بنا پر ایران نے اپنے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے اسے روک لیا۔
ایران کا کہنا ہے کہ برطانوی آئل ٹینکر نے آبنائے ہرمز سے گزرتے ہوئے چار بڑی غلطیاں کیں۔
سب پہلی غلطی یہ کہ وہ اس بین الاقوامی آبنائے میں اس راستے سے داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا جو اس سے باہر نکلنے کا طے شدہ راستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ جی پی ایس سمیت اپنے تمام نیوگیشن سسٹم آف کر دیئے تھے تاکہ اس کا پتہ نہ لگایا جاسکے۔
ایک اور خلاف ورزی یہ کی کہ وہ اپنا فاضل تیل یا کچرا سمندر میں چھوڑ رہا تھا جو سمندری آلودگی کا سبب ہے اور آخری خلاف ورزی یہ کہ برطانوی آئل ٹینکر ماہیگیری میں مصروف ایرانی لانچ سے بھی ٹکرایا اور اس حادثے پر کوئی توجہ دیئے بغیر آگئے کی جانب نکلتا چلا گیا۔
بنابرایں آبنائے ہرمز کے شمالی ملک کی حثیت سے ایران نے انیس سو بیاسی کے عالمی کنویشن سمیت جہاز رانی کے عالمی قوانین کے مطابق برطانوی بحری جہاز کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
برطانوی وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ میں شور مچاتے ہوئے بڑے شد و مد کے ساتھ کہا کہ ان کا ملک آبنائے ہرمز میں جہاز رانی کی سلامتی کے لیے ایک اتحاد بنانا چاہتا ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ امریکہ نے بھی آبنائے ہرمز کی سیکورٹی کے لیے عالمی اتحاد کے قیام کی تجویز پیش کی ہے اور ہم بھی آبنائے ہرمز میں جہاز رانی کی سلامتی کے لیے خصوصی یورپی فورس کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہنٹ کے دعوے کے بر خلاف ایسے کسی بھی سمندری اتحاد کا قیام لاتعداد سوالات کا باعث بنا ہوا ہے۔ برطانیہ کے قدامت پرست حکمرانوں کی توقع کے برخلاف جو برطانیہ کے لیے امریکہ کی ہمہ گیر حمایت کی امید لگائے بیٹھے ہیں، واشنگٹن کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کم از کم ٹرمپ انتظامیہ سے ایسی حمایت کی آس نہیں لگانا چاہیے۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے آبنائے ہرمز میں برطانوی آئل ٹینکر اسٹینا ایمپیرو کو روکے جانے کے بارے میں، فاکس نیوز سے گفتکو کرتے ہوئے صاف صاف کہا ہے کہ اپنے بحری جہازوں کی حفاظت کی ذمہ داری خود برطانیہ پرعائد ہوتی ہے اور یہ کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہیں۔
آخری بات یہ کہ آبنائے ہرمز میں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ذریعے برطانونی آئل ٹنکر کو روکے جانے کے برخلاف جو مکمل طور پر عالمی قوانین کے مطابق ہے، برطانوی میرین فوج نے آبنائے جبل الطارق سے گزرنے والے ایرانی آئل ٹینکر کو شام کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کے بہانے غیر قانونی طور پر روک رکھا ہے اور اسے چھوڑنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ شام کے خلاف یورپی یونین کی پابندیاں یکطرفہ ہیں ایران ان پر عملدرآمد کا پابند نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ خود یورپی یونین بھی دیگر ملکوں کے خلاف امریکہ کی یک طرفہ پابندیوں کی مذمت کرتی رہی ہے بنا برایں وہ خود ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی لہذا برطانیہ کی جانب سے ایرانی آئل ٹینکر کو روکے جانے کا کوئی قانونی جواز نہیں پایا جاتا۔