امریکہ میں کورونا وائرس کے باعث بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں اضافہ
ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے بعد سے اب تک امریکا بھر میں 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بیروزگاری کا شکار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چار ہفتے قبل ملک گیر ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے بعد سے اب تک امریکا بھر میں 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بیروزگاری کا شکار ہو کر حکومتی مدد کے لیے درخواست دے چکے ہیں
شیئرینگ :
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چار ہفتے قبل ملک گیر ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے بعد سے اب تک امریکا بھر میں 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بیروزگاری کا شکار ہو کر حکومتی مدد کے لیے درخواست دے چکے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے باعث امریکا کو ایک دہائی کے دوران روزگار کے سلسلے میں حاصل ہونے والے فوائد، نقصان میں تبدیل ہوچکے ہیں اور لوگ حکومت کی مدد کے لیے فوڈ بینکوں کے باہر قطار در قطار کھڑے نظر آ رہے ہیں۔
لیبر ڈپارٹمنٹ نے جمعرات کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے 52 لاکھ افراد نے بیروزگاری کے باعث انشورنس کلیم فائل کیے تھے جو حالیہ دنوں میں ایک بڑا اضافہ ہے جہاں گزشتہ دو ہفتوں بھی بالترتیب 66 لاکھ اور 69 لاکھ افراد نے انشورنس کمپنیوں سے رابطہ کیا تھا۔
گریٹ ڈپریشن کے بعد سے امریکا میں اس حد تک بیروزگاری نہیں بڑھی اور کورونا وائرس کے باعث بڑھتی ہوئی اموات اور معاشی بحران کے باعث بند ہوتے ہوئے کاروباری حالات میں حکومت تیزی سے اقدامات اٹھانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق امریکا میں 2010 سے فروری 2020 تک تقریباًً 2 کروڑ 20 لوگوں کو نوکریاں ملی تھیں لیکن اس وبا کے دوران محض چند ہفتوں میں اتنے ہی افراد نوکریاں گنوا چکے ہیں اور امریکی شہری ایک دہائی میں حاصل کی گئیں نوکریاں گنوا بیٹھے ہیں۔
ماہرین معاشیات نے خبردار کیا کہ اس لاک ڈاؤن کے اثرات سے نکلنے میں طویل وقت لگ سکتا ہے اور سال کے اختتام تک لاکھوں امریکی نوکریوں سے محروم رہ سکتے ہیں، اگر کچھ معاشی سرگرمیاں بحال ہو بھی گئیں تو بھی بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور ویکسین کے بغیر لوگ ریسٹورنٹ اور دفاتر جانے میں خوف محسوس کریں گے۔
معاشی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ اپنے اہلخانہ اور دوستوں کو نوکریوں سے محروم ہوتے اور ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کو دیکھتے ہوئے امریکی عوام نے اپنے اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی کر لی ہے۔
اس حوالے سے اعدادوشمار پر گہری نظر رکھنے والے نیشنل ایسوسی ایشن فار بزنس اکنامکس کے امریکی ماہرین نے بتایا کہ امریکا میں اس وقت بیروزگاری کی شرح 20 فیصد ہے اور سال کے اختتام تک بھی یہ 10فیصد رہنے کا اندیشہ ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر 10 میں سے ایک فرد کے پاس نوکری نہیں ہو گی۔
فلیڈیلفیا کے فیڈرل ریزرو بینک کے صدر پیٹرک ہارکر نے کہا کہ ہمیں دو سہ ماہیاں انتہائی بحرانی حالات میں گزارنا ہوں گی، میرے خیال میں بیروزگار کے اعدادوشمار 20 فیصد کے قریب ہوں گے۔
امریکا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر ریاست اور تقریباً ہر صنعت میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور آنے والے امریکی انتخابات میں انتہائی اہم تصور کی جانے والی چند ریاستیں اس سلسلے میں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
مچیگن میں گزشتہ ماہ کے دوران 21 فیصد افراد نے بیروزگاری فنڈ کیلئے درخواست دی، پینسل وینیا، اوہیو اور نیواڈا میں 20 فیصد افراد بیروزگار ہوئے جبکہ اس حوالے سے سب سے بری صورتحال ریاست ہوائی کی ہے جہاں 22 فیصد افراد نوکریاں گنوا بیٹھے۔
معاشی ماہر اور امریکی محکمہ خزانہ کے سابق عہدیدار ارنی تڈیشی نے کہا کہ ہر شخص نوکری چھوٹنے یا تنخواہ میں کتوتی کے خوف سے دوچار ہے اور انہیں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ ان کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ بے روزگاری کی اس شرح کے نفسیاتی اثرات بہت عرصے تک مرتب ہوں گے اور اب عالمی کساد بازاری کے بعد پہلی مرتبہ ارب پتی افراد بھی جائیدادیں خریدنے سے کترا رہے ہیں۔
امریکا میں بھی اس وقت حکومت کی جانب سے امداد کی فراہمی تعطل کا شکار ہے کیونکہ ریونیو سروس کے پاس لوگوں کی مکمل طور پر بینک کی معلومات موجود نہیں۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ ابھی بہت سے لوگوں نے مختلف مسائل کے باعث بیروزگاری فنڈ کے لیے درخواست نہیں دی ورنہ نوکریوں سے محروم ہونے والوں کی تعداد 22 ملین سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس وقت 7 افراد کے ایک خاندان میں کم از کم ایک فرد بے روزگاری کا شکار ہے۔
واضح رہے امریکا دنیا بھر میں وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک ہے، دنیا میں اب تک اس وائرس سے 21 لاکھ 80 ہزار افراد متاثر اور ایک لاکھ 39 ہزار ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکا میں روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے زائد افراد وائرس سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور اب تک 26 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ سوا 6 لاکھ سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔