اماراتی حکمران ہوں یا نریندر مودی، دونوں کی پشت اسرائیل تھپتھپا رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کے ماضی قریب کے منظر نامے کو دیکھ کر یہ تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل ان دونوں کا بھاری نقصان کروائے گا
شیئرینگ :
اسرائیل سارا سال کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کرکے اپنے لئے رائے عامہ ہموار کرتا ہے، مگر یہ صرف ایک دن جسے "یوم القدس" کہتے ہیں, اس کے سارے کِئے کرائے پر پانی پھیر کر رکھ دیتا ہے۔ اسرائیلوں کو سب سے زیادہ غصہ امام خمینیؒ پر اسی لئے ہے کہ انہوں نے ہی یہ تجویز دی تھی اور پھر پوری دنیا سے کہہ بھی دیا تھا کہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ بعنوانِ یوم القدس منایا جائے۔ تب سے اب تک پوری دنیا کے مسلمان بلاتفریق مسلک، اس دن کو منا رہے ہیں، بلکہ اب تو مسلمانوں کیساتھ ساتھ غیرت مند عیسائی اور یہودی بھی اسرائیل کی بربریت کیخلاف اس احتجاج میں شامل ہوتے ہیں اور اسرائیل سے اظہار برات کرتے ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اسرائیل میں مسلسل خوف کے بادل چھائے ہیں، اسرائیلی عوام اب نیتن یاہو کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہی انہیں بچا پائے گا، مگر نیتن یاہو خود خوفزدہ ہے، اس کا خوف اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ اب انہوں نے تل ابیب سے اپنا دارالحکومت بھی ختم کر دیا ہے۔ اب وہاں صرف علامتی طور پر تل ابیب کو اسرائیل کا دارالحکومت ظاہر کیا جاتا ہے۔
درحقیقت اسرائیل کے تمام اہم دفاتر دبئی (متحدہ عرب امارات) منتقل ہوچکے ہیں۔ یہودیوں اور النہیان خاندان میں آج کل قربتیں عروج پر ہیں۔ اسرائیل کے تمام معاملات اب دبئی سے مانیٹر اور ہینڈل ہو رہے ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے اعلان کیا تھا کہ بہت جلد اسرائیل کو حرفِ غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا، تب سے اسرائیلیوں کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دبئی کو تل ابیب بنا لیا گیا ہے۔ جب سے اسرائیلی موساد نے دبئی کو اپنے قبضے میں لیا ہے، تب سے متحدہ عرب امارات نے ہمسایہ ممالک کیساتھ اَکڑنا بھی شروع کر دیا ہے۔ یو اے ای کے حکمرانوں کو یہ زعم لاحق ہوگیا ہے کہ اب موساد اور اسرائیل ان کے دفاع کیلئے موجود ہیں۔ اگر یو اے ای پر کہیں سے حملہ ہوگیا تو اسرائیل ہی دفاع کرے گا۔ النہیان خاندان سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہے، جس کے باعث وہ موثر دفاع کا نظام رکھتا ہے۔
مگر انہیں شائد یہ یاد ہی نہیں رہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے پاس ایک ہی دفاعی ٹیکنالوجی ہے اور یہ ٹیکنالوجی ایران کے ہاتھوں عراق میں بُری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ عین الاسد میں امریکی رعب تہران نے خاک میں ملا دیا۔ اب پوری دنیا جان چکی ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی جسے وہ ہیرو سمجھتے تھے، زیرو ہے۔ لیکن نجانے کیوں یو اے ای اور انڈیا اسرائیل کیساتھ مل کر خطے میں ایک نیا جال بن رہے ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے نئی دہلی اور دبئی میں اچھے خاصے اثرات پائے جا رہے ہیں، جس طرح اماراتی حکمران موساد کی موجودگی سے خود کو "شیر" سمجھ کر ہمسایوں سے الجھ رہے ہیں، اسی طرح مودی بھی نئی دلی میں اسرائیلیوں کے دفاتر قائم ہونے سے خود کو "شیر" سمجھنے لگ گیا ہے۔ مودی نے بھی پاکستان کی ایل او سی پر جھڑپیں کرنا شروع کر دی ہیں۔
اماراتی حکمران ہوں یا نریندر مودی، دونوں کی پشت اسرائیل تھپتھپا رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کے ماضی قریب کے منظر نامے کو دیکھ کر یہ تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل ان دونوں کا بھاری نقصان کروائے گا۔ دونوں اپنی اپنی پشت پر اسرائیل کا ہاتھ دیکھ کر آپے سے باہر تو ہو رہے ہیں، مگر یہ یہودی صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں، اسرائیل کبھی بھی یو اے ای یا انڈیا کیلئے قربانی نہیں دے گا، بلکہ اپنا آپ بچائے گا۔ انڈیا نے کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑنے کیلئے جو پالیسی اپنا رکھی ہے، وہ "میڈ اِن اسرائیل" ہے، اسی طرح یو اے ای بھی انڈیا کی دیکھا دیکھی اپنے پَر پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اور اس کے اتحادی بھی خطے کی صورتحال سے غافل نہیں۔ ایران نے خطے میں ہونیوالی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور اس کے سدباب کیلئے اپنا پلان تیار کئے بیٹھا ہے۔ ایرانی حکومت ابوظہبی کیساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ دبئی میں ہونیوالی ہر حرکت کو باقاعدہ مانیٹر کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ ایران کے ترکی اور قطر کیساتھ بھی گہرے راوبط ہیں، جن کا فائدہ بہرحال ایران کو ہوگا، یہ تینوں (ایران، ترکی، قطر) چین کے بھی قریب ہیں، جبکہ یو اے ای، سعودی عرب اور انڈیا ایک پیج پر ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے مسلسل یمن کے نہتے عوام پر مظالم کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس کی مسلم دنیا اور غیر جانبدار حلقوں نے ہمیشہ مذمت کی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں نیا جال بچھانے کیلئے کوشاں ہے، مگر جال کو کُترنے والے اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں سے بہتر طور پر آگاہ ہیں۔ ایران نے کشمیر کے ایشو پر دوٹوک موقف اختیار کیا تھا۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری کے باوجود ایران نے پاکستانی موقف کی حمایت کی تھی۔ جو مستقبل کیلئے واضح اشارہ تھا کہ حالیہ سرد مہری پاک ایران تعلقات میں گرمجوشی بھی لا سکتی ہے۔ اسی طرح ایران نے فلسطین کی سنی حماس کی حمایت کرکے خطے میں شیعہ سنی کو لڑانے کی اسرائیلی سازش بھی ناکام بنا دی۔
مگر دبئی میں بیٹھا اسرائیل اب پاکستان میں ایک نیا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے، اب پاکستان میں شیعہ کو شیعہ سے اور سنی کو سنی سے لڑانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس میں چند ٹیلی ویژن چینلز کو "اہداف" دیئے گئے ہیں، جو فرقہ واریت کو ہوا دیں گے۔ اس حوالے سے رمضان المبارک میں کچھ چینلز سے ایسے متنازع پروگرامز نشر بھی ہوئے ہیں۔ شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات آج کی بات نہیں، یہ باہمی طور پر ختم بھی نہیں ہوسکتے، لیکن ان کا تذکرہ نہ کرکے اور مشترکات پر متحد ہو کر باہمی اخوت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ خطے میں اسرائیل کی سازشوں کا بہترین توڑ باہمی وحدت ہے، شیعہ اور سنی کو ادراک کرنا ہوگا کہ یہ دونوں مسالک جسدِ اسلام کے دو بازو ہیں۔ ایک دوسرے کو کاٹنے کی بجائے ایک دوسرے کیلئے سہارا بننا ہوگا اور اسی اتحاد سے ہی اسرائیل کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ پاکستان سمیت خطے میں شیعہ اور سنی متحد ہوگئے تو دلی و دبئی کے ناپاک عزائم خود بخود ملیا میٹ ہو جائیں گے۔