افغانستان، یمن، لیبیا، عراق، شام اور خود فلسطین میں بہائے جانے والے اس ناحق خون کا ذمہ دار کون ہے؟ آج مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تعزیت کیوں نہیں کرتا؟ کیوں دسیوں سال سے فلسطینی اپنے گھروں سے آج بھی جلا وطن ہے؟ کیوں قدس شریف جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس کی توہین کی جائے؟ نام نہاد اقوام متحدہ اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مرچکی ہیں۔ بچوں اور خواتین کے حقوق کے نعروں کا اطلاق فلسطین اور یمن میں بچوں اور خواتین پر نہیں ہوتا
شیئرینگ :
مسئلہ فلسطین دنیا کی تاریخ میں ایک ایسا اہم ترین مسئلہ ہے، جو نہ صرف فلسطین سے متعلق ہے بلکہ خطے سمیت دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ بھی بالواسطہ یا براہ راست کسی نہ کسی طرح منسلک اور اثر انداز ہو رہا ہے۔ لہذا جب عالمی سیاست کے افق پر کوئی ذی شعور اور بابصیرت قیادت یہ کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل دنیا کے تمام مسائل کے حل کی جڑ ہے یا پھر یہ کہا جاتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ دنیائے اسلام کا اہم ترین مسئلہ ہے یا انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو یہ بات بے جا نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو فلسطین پر ہونے والے اسرائیلی قبضہ، صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام اور پھر اسرائیل کے دعووں کی روشنی میں کہ گریٹر اسرائیل بنایا جائے گا وغیرہ وغیرہ، یہ سب باتیں اسی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ خطے سمیت دنیا کے بہت سے مسائل کی جڑ فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا قیام اور پھر مسلسل اسرائیل کی جانب سے خطے میں جنگوں اور داخلی انتشار کا پھیلاؤ ہے۔ حال ہی میں رمضان المبارک میں دنیا بھر میں آخری جمعہ کو فلسطین سے اظہار یکجہتی کا دن یعنی یوم القدس منایا گیا ہے۔ یوں تو یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے، لیکن اس سال کورونا جیسی خطر ناک وباء کی صورت میں اس دن کی اہمیت مزید بڑھ کر سامنے آئی ہے۔ یہاں پر سب سے اہم بات جو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پہلی مرتبہ یوم القدس کی مناسبت سے تقریر کی ہے، اس کے متن کے مندرجات نہ صرف فلسطین کے لئے بلکہ پوری مسلم دنیا کے لئے ایک مشعل راہ کی مانند نظر آرہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں نے اس خطاب کو فلسطین کے اندر بے پناہ مقبولیت دی ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین سے متعلق سامراجی طاقتوں کی جانب سے کی جانے والی منفی کوششوں پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے مسلم دنیا کو خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ سامراجی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہی پالیسی رہی ہے کہ مسئلہ فلسطین کو کم رنگ اور کم اہمیت بنا کر پیش کیا جائے اور مسلمانوں کے اذہان سے مسئلہ فلسطین کے نقش کو مٹا دیا جائے۔ لہذا یہاں پر سب مسلمانوں کی اہم ترین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سامراج کی اس سازش و کوشش کو ناکم بنانے میں اس خیانت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ آج سامراجی طاقتوں کے سیاسی اور ثقافتی میدان میں سرگرم آلہ کار اور ایجنٹ اسلامی ممالک میں اس خیانت کو رواج دے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطین جیسے عظیم اور باعظمت مسئلہ کو مسلمانوں کی غیرت، خود اعتمادی اور بیداری فراموش کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ حالانکہ اس مقصد کے حصول کے لئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ اور طاقت استعما ل کر رہے ہیں۔ یقیناً موجودہ صورتحال میں کہ جہاں ایک طرف امریکی صدر ٹرمپ نے صدی کی ڈیل کا اعلان کر رکھا ہے اور فلسطین کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے، وہاں مسلمان عرب حکمرانوں کی خیانت قابل ملامت ہے کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات روا رکھنے اور دوسرے اسلامی ممالک کو اس کی ترغیب دینے اور مجبور کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر نے فلسطین کی مقدس سرزمین پر اسرائیلی سرطانی پھوڑے کے وجود کو انسانی المیہ قرار دیا ہے۔ تاریخ میں اس طرح کے سفاک انسانی جرم میں اس پیمانہ کی شدت کا کوئی جرم نہیں ملتا ہے۔ فلسطین پر باہر سے لاکر صہیونیوں کو آباد کرنا، فلسطینیوں کو گھروں سے نکال دینا، ان کے باغات، کھیتوں اور کھلیانوں اور تمام املاک پر قبضہ جما لینا، یہ سب ایسے جرائم ہیں کہ جو امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتوں کی ایماء پر فلسطین میں انجام پائے ہیں۔ فلسطین کے اس انسانی المیہ پر امریکہ سمیت تمام تسلط پسند شیطانی قوتیں ذمہ دار ہیں۔ فلسطین کی مقدس سرزمین پر اسرائیل کے قیام کے حالات اور بعد کے حالات سے واضح طور پر علم ہوتا ہے کہ مغربی حکومتوں اور یہودی سرمایہ داروں کا صہیونی حکومت کی تشکیل کا اصل مقصد غرب ایشیاء میں اپنا دائمی اثر و رسوخ قائم کرنا تھا۔ وہ اس علاقہ میں اپنی موجودگی کیلئے ایک اڈا قائم کرنا چاہتے تھے، تاکہ اس کی مدد سے علاقے کی دیگر حکومتوں اور ان کے داخلی مسائل میں دخل اندازی کرسکیں اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کریں۔ اسی لئے غاصب صہیونی ریاست کو امریکہ سمیت دیگر تسلط پسند قوتوں نے گونا گوں اسلحہ سے لیس کیا، یہاں تک کہ ایٹمی طاقت سے بھی لیس کر دیا گیا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی یوم القدس کی مناسبت سے اپنے خطاب میں دنیا بھر میں موجود فلسطین پسند قوتوں اور فلسطین کی آزادی کی حامی قوتوں اور ایسے افراد کے لئے کہ جو فلسطین کے ساتھ قلبی اور عقیدتی وابستگی رکھتے ہیں، سب کے لئے فلسطین کی حمایت کو واجب اور فرض قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فلسطین کی آزادی کے لئے جنگ، جہاد فی سبیل اللہ، اسلامی مطالبہ اور فریضہ ہے۔ ایسی جنگ میں فتح یقینی ہے۔ ہر انسان کو چاہیئے کہ شجاعت کے ساتھ آج فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہو۔ انہوں نے تکرار کرتے ہوئے زور دیا کہ فلسطین کے مسئلہ کو جو بھی عربی یا فلسطینی مسئلہ بنانا چاہتے ہیں، وہ بہت بڑی غلطی پر اور عالم اسلام سے خیانت پر مرتکب ہیں۔ آج فلسطین کے لئے مقابلہ کا مقصد فلسطین کی مکمل آزادی ہے۔ یعنی فلسطین جو نہر سے بحر تک ہے، (یعنی بحیرہ روم سے دریائے اردن تک)۔ فلسطین کے عوام مغربی قوتوں کی جانب سے فلسطین و قدس کی کسی قسم کی تقسیم کو قبول نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطین کی آزادی سے تعلق رکھنے والوں نے بھی فلسطین کی غیور اور شجاع ملت کے اس موقف کی تائید کی ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔
مسئلہ فلسطین کے حل سے متعلق اگر کوئی بھی شخص یا گروہ مغرب کی دھوکہ باز چالوں یعنی مذاکرات اور گفتگو کے عمل سے سمجھتا ہے کہ فلسطین کی آزادی ممکن ہے تو وہ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ عالمی سامراجی قوتیں عالم اسلام کے وجود کی دشمن ہیں۔ وہ خود مسلم امہ کو پہنچنے والے زیادہ تر نقصانات کی ذمہ دار ہیں۔ آج کون سی عالمی طاقت اور عالمی ادارہ ہے، جو کئی اسلامی و عرب ممالک میں جاری دہشت گردی، قتل عام، بھڑکتی جنگوں، بمباری یا مصنوعی قحط کے بارے میں جوابدہ ہے؟ آج دنیا عالمی سطح پر کورونا سے ہونے والی ایک ایک موت کو تو گنتی کر رہی ہے، لیکن کسی نے بھی پوچھا اور نہ پوچھے گا کہ جن ممالک میں امریکہ، یورپ اور اسرائیل نے جنگ بھڑکائی ہے، وہاں لاکھوں افراد کی شہادت، قید، گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے؟ افغانستان، یمن، لیبیا، عراق، شام اور خود فلسطین میں بہائے جانے والے اس ناحق خون کا ذمہ دار کون ہے؟ آج مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تعزیت کیوں نہیں کرتا؟ کیوں دسیوں سال سے فلسطینی اپنے گھروں سے آج بھی جلا وطن ہے؟ کیوں قدس شریف جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس کی توہین کی جائے؟ نام نہاد اقوام متحدہ اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مرچکی ہیں۔ بچوں اور خواتین کے حقوق کے نعروں کا اطلاق فلسطین اور یمن میں بچوں اور خواتین پر نہیں ہوتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں مسلم امہ کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ فلسطین کاز کی حمایت اور قدس شریف کی آزادی کی کوششوں کو روکنے کے لئے سامراجی قوتیں مسلم امہ کو داخلی انتشار میں الجھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ شام میں خانہ جنگی، یمن پر جنگ مسلط کرنا، عراق میں دہشت گردی یہ سب کچھ دشمن کی تخریب کاریوں میں شامل ہے۔ بعض مسلم ممالک کے حکمران دانستہ اور بعض نادانستہ طور پر دشمن کے ان حربوں میں شامل ہیں۔ آج وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ جتنا غصہ ہو، امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل پر نکالیں۔ خطے کی عرب حکومتوں کو سمجھنا چاہیئے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنا امریکہ کی جانب سے دنیا کے سامنے اسرائیل کے وجود کو ایک عام اور معمولی قرار دینے کی کوشش ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔ ہمارے فلسطین کے بھائی حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی جیسی مزاحمتی گروہوں کی شکل میں آج فلسطین کا دفاع کر رہے ہیں۔ غاصب اسرائیل کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ ہمیں ان کی کوششوں اور جہاد فی سبیل اللہ میں بہائے جانے والے مجاہدین کے لہو کی پاسداری کرنا ہوگی۔
فلسطینی مجاہدین کے پاس دین، غیرت اور شجاعت موجود ہے۔ ان کے وجود سے ہی آج صدی کی ڈیل ناکام ہو رہی ہے۔ آج فلسطین میں طاقت کا توازن بدلنے میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں حماس، حزب اللہ اور جہاد اسلامی کا اہم ترین کردار ہے۔ اسرائیل جو پہلے علاقوں پر قبضہ کر لیتا تھا، آج فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے مقابلہ میں چند گھنٹوں میں جنگ بندی کی درخواست کرتا نظر آتا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے۔ اس کے امور انہی کے ارادے کے مطابق انجام پانے چاہئیں۔ فلسطین کے تمام ادیان اور اقوام کی شمولیت سے استصواب رائے کی جو تجویز دو عشروں قبل پیش کی گئی تھی، فلسطین کے مستقبل کا واحد حل ہے۔ یہ تجویز ثابت کرتی ہے کہ یہودی دشمنی کے جو بگل مغربی طاقتیں اپنے تشہیراتی ذرائع کی مدد سے بجاتی رہی ہیں، بالکل بے بنیاد ہیں۔ اس تجویز کے مطابق فلسطینی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ استصواب رائے میں شریک ہونا اور فلسطین کے لئے سیاسی نظام کا تعین کرنا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اختتام پر پوری مسلم دنیا کو جس امید کی طرف گامزن کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جسے جانا ہے، وہ صہیونی نظام اور صہیونیت ہے۔ جو خود یہودی مذہب میں ایک بدعت اور اس سے بالکل بیگانہ ہے۔ فلسطین کی آزادی حتمی اور عنقریب ہے۔