سعودی عرب اس صوبے پر مکمل قبضہ قائم کرنے کے درپے ہے تاکہ اس علاقے سے اپنی تیل کی پائپ لائن مکران کے سمندر تک آگے بڑھا سکے۔ لیکن مقامی قبائلی باشندوں کی مزاحمت نے اس کا یہ منصوبہ روک رکھا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس صوبے میں امریکہ نے بھی اپنی فوجی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے
شیئرینگ :
تحریر: علی محرابی
بشکریہ: اسلام ٹائمز
اسلامی ملک یمن گذشتہ چند سالوں سے عالمی استکباری قوتوں اور خطے میں ان کے پٹھو حکمرانوں کے جارحانہ اقدامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس اسلامی ملک میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ یمن کے بعض حصے براہ راست طور پر امریکہ اور اسرائیل کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک یمن کا صوبہ المہرہ ہے۔ یہ صوبہ مشرق کی جانب عمان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس وقت اس صوبے میں سعودی عرب کی افواج موجود ہیں اور انہوں نے عمان جانے والے سرحدی راستوں کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ دوسری طرف یمن کے اس صوبے میں بسنے والے المہرہ قبیلے بیرونی فوجی قوتوں کے شدید مخالف ہیں اور ان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔
سعودی عرب اس صوبے پر مکمل قبضہ قائم کرنے کے درپے ہے تاکہ اس علاقے سے اپنی تیل کی پائپ لائن مکران کے سمندر تک آگے بڑھا سکے۔ لیکن مقامی قبائلی باشندوں کی مزاحمت نے اس کا یہ منصوبہ روک رکھا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس صوبے میں امریکہ نے بھی اپنی فوجی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس علاقے میں امریکہ کی مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حتی یمن میں تعینات امریکی سفیر بھی اس صوبے کا دورہ کر چکا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ یمن کے صوبہ المہرہ میں فوجی اڈہ قائم کرنے کے درپے ہے جسے جزیرہ سقطری میں موجود فوجی اڈے سے جوڑا جائے گا۔ ان دونوں فوجی اڈوں کا مقصد صومالیہ میں تعینات امریکی فوجیوں کو وہاں سے نکال کر یہاں منتقل کرنا ہے۔
لہذا اپنے منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے امریکہ اس صوبے میں سعودی عرب کی فوجی مدد اور پشت پناہی میں مصروف ہے۔ یہ صوبہ رقبے کے لحاظ سے یمن کا سب سے بڑا صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ اب تک امریکہ اس صوبے میں فوجی موجودگی کا کوئی ایسا مناسب بہانہ تلاش نہیں کر پایا جو وہ یمنی حکام اور عالمی رائے عامہ کو پیش کر سکے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس صوبے میں مقیم المہرہ قبائل سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امریکی فوجیوں کے خلاف بھی مزاحمتی کاروائیوں کا آغاز کر دیں گے۔ گذشتہ برس 29 نومبر کے دن یمن میں امریکی سفیر کریسٹوفر ہینزل نے صوبہ المہرہ کا اچانک دورہ کیا اور سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد کی جانب سے مقرر کئے گئے گورنر محمد علی یاسر سے ملاقات کی تھی۔
گذشتہ ہفتے صوبہ المہرہ میں جوانوں سے متعلقہ امور کے نمائندے بدر کلشات نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ اس صوبے کے "الغیضہ" ایئرپورٹ پر امریکی اور برطانوی فوجی موجود ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یمن میں امریکی سفیر اس ایئرپورٹ پر موجود امریکی اور برطانوی فوجیوں سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ یمن کی قومی حکومت کے وزیراعظم عبدالعزیز بن حبتور نے بھی امریکی سفیر کی جانب سے صوبہ المہرہ کے دورے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے: "امریکی سفیر کے اس اقدام نے صوبہ المہرہ میں سعودی عرب کی موجودگی کے پس پردہ اہداف واضح کر دیے ہیں۔ سعودی فورسز کی موجودگی کا مقصد اس علاقے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے مقدمات فراہم کرنا ہے۔"
یمن کے وزیراعظم نے مزید کہا: "امریکی سفیر کے اس اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اتحاد جو بظاہر سعودی دکھائی دیتا ہے حقیقت میں امریکی صہیونی اہداف کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہے۔ یمنی قوم ہر گز اس ناجائز قبضے اور تسلط کو قبول نہیں کرے گی۔" یاد رہے امریکہ اور خطے میں اس کے پٹھو حکمرانوں نے یمن کے صوبہ المہرہ کے علاوہ صوبہ حضر موت اور سقطری اور میون جزیروں پر بھی تسلط اور قبضہ جمانے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ تمام اقدامات خطے میں اس امریکی صہیونی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد خطے میں اسرائیلی اثرورسوخ کو فروغ دینا ہے۔ سعودی عرب نے 2018ء میں یمن کے صوبہ المہرہ میں فوج تعینات کر دی تھی جبکہ یہ صوبہ جنگ والے علاقے سے بہت دور واقع ہے۔
صوبہ المہرہ کے مقامی قبائل نے اس علاقے میں سعودی فوج کی موجودگی کی شدید مخالفت کی ہے۔ گذشتہ برس المہرہ قبائل اور سعودی فوج میں شدید جھڑپیں بھی انجام پائی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ یمن کے صوبہ المہرہ میں مقامی باشندوں کے خلاف سعودی افواج کے اقدامات "ہولناک" ہیں۔ یاد رہے سعودی افواج مقامی افراد کو غیر قانونی طور پر اغوا کر کے انہیں شدید ٹارچر کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی افواج مقامی باشندوں کو سعودی عرب منتقل کرتے رہے ہیں۔ المہرہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما احمد بلحاف نے کہا ہے کہ سعودی افواج کی سرگرمیوں کا مقصد تمام زمینی اور سمندری راستوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔