بظاہر جنرل سلیمانی ایک برادر اسلامی ملک کے جرنیل تھے، لیکن حیران کن طور پر ان کی شہادت پر دنیا کے کونے کونے سے آوازیں بلند ہوئیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی عرب ممالک نے اس ردعمل کو ہر ممکن طریقہ سے دبانے اور محدود رکھنے کی تاریخی کوششیں کیں، سوشل میڈیا پر ایسی قدغنیں دور حاضر میں کبھی نہیں دیکھی گئیں جیسا کہ سانحہ 3 جنوری کے بعد دیکھنے کو ملیں۔ اس کے علاوہ عالمی میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی بھرپور کوششیں کی گئیں، مسلم ممالک کی قیادت سے رابطے کئے گئے اور انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ لیکن بقول شاعر تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
شیئرینگ :
رواں سال کے پہلے ہفتہ (3 جنوری) کو علی الصبح عالمی میڈیا پر ایک خبر تیزی سے پھیل گئی کہ ’’اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہِ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابو مھدی المھندس کو بغداد میں امریکی ہیلی کاپٹرز کے حملہ میں شہید کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ خبر جہاں اسلام دشمن، استعماری اور استکباری حلقوں میں خوشی کا باعث تھی، وہیں دنیا بھر کے حریت پسندوں، مظلومین اور مزاحمتی طبقہ کیلئے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ امریکہ اپنے مکروہ عزائم کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ (جنرل سلیمانی) کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ جنرل سلیمانی اور ان کے رفقاء کی شہادت دنیا کو ایک نئے مرحلہ میں لیجانے کی طرف اشارہ کر رہی تھی اور گزرتے وقت کیساتھ یہ ثابت بھی ہوگیا۔ جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد دنیا بھر میں موجود ان کے پیروکاروں اور چاہنے والوں کی تعداد کا اندازہ ہوا، جسے خود امریکہ اور اس کے حواری دیکھ کر حیران رہ گئے۔
بظاہر جنرل سلیمانی ایک برادر اسلامی ملک کے جرنیل تھے، لیکن حیران کن طور پر ان کی شہادت پر دنیا کے کونے کونے سے آوازیں بلند ہوئیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی عرب ممالک نے اس ردعمل کو ہر ممکن طریقہ سے دبانے اور محدود رکھنے کی تاریخی کوششیں کیں، سوشل میڈیا پر ایسی قدغنیں دور حاضر میں کبھی نہیں دیکھی گئیں جیسا کہ سانحہ 3 جنوری کے بعد دیکھنے کو ملیں۔ اس کے علاوہ عالمی میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی بھرپور کوششیں کی گئیں، مسلم ممالک کی قیادت سے رابطے کئے گئے اور انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ لیکن
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کی عملی تصویر کشی کرتے ہوئے جنرل سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور انکے رفقاء کا پاک خون لاکھ کوششوں کے باوجود نہ چھپ سکا، نہ دب سکا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جنرل سلیمانی دشمن پر شہادت کے بعد زیادہ قہر بن کر ٹوٹے تو غلط نہ ہوگا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
پاکستان میں اس سانحہ کے ردعمل میں احتجاجی مظاہرے، تعزیتی نشستیں، مجالس، سیمینارز، ریفرنسز اور جلسے منعقد ہوئے، جنرل سلیمانی شدید پابندیوں کے باوجود بھی پاکستان میں سوشل میڈیا پر راج کر رہے تھے۔ عالم اسلام کی کئی بڑی شخصیات کی وفات یا شہادت پر پاکستان میں اتنا شدید ردعمل نہیں دیکھا گیا، جتنا کہ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت پر نظر آیا۔ حتیٰ کہ وہ طبقات جو کہ عالمی حالات سے بے خبر رہتے ہیں، ان ذہنوں پر بھی جنرل سلیمانی کی بادشاہی نظر آئی۔ آخر کیا وجوہات تھیں کہ ایک برادر اسلامی ملک کے جرنیل کی شہادت پر پاکستان میں بھی اس قدر شدید غم و غصہ دیکھا گیا۔؟ قاسم سلیمانی کا پاکستانیوں سے آخر کیا رشتہ یا تعلق تھا۔؟ کیوں پاکستانی حریت پسند عوام امریکہ کی اس جارحیت پر اس قدر نالاں دکھائی دیئے۔؟ حقیقت یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے اقدامات یا خدمات صرف اسلامی جمہوری ایران کیلئے نہیں تھیں، بلکہ وہ جن محاذوں پر دشمن سے مدمقابل تھے، اس کا مقصد دراصل اسلام کے مفادات کا تحفظ تھا، نہ کہ کسی ایک ملک کا۔
انہوں نے داعش جیسی دہشتگرد تنظیم کو شکست دیکر مقدسات اسلامی کا تحفظ کیا، عراق و شام میں اہلبیت (ع) اور صحابہ کرام کے روضہ جات اور مزارات کو دشمن کے شر سے بچایا، جنرل سلیمانی نے مسلم ممالک کو دہشتگردی سے محفوظ کیا۔ اگر داعش کا مقابلہ نہ کیا جاتا تو کوئی بعید نہ تھا کہ یہ ظالم گروہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی پہنچ جاتا۔ جنرل سلیمانی نے مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی کی تحریک کو مضبوط کیا، مجاہدین کو عیار دشمن کے مقابلہ میں عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا شعور دیا، خطے کے مظلوم اہلسنت شہریوں کے دفاع اور اتحاد بین المسلمین کے فروغ میں حقیقی کردار ادا کیا، انہوں نے اسلامی مزاحمتی محاذ کو مضبوط بنانے کیلئے عوامی رضاکار فورسز تشکیل دیں، محاذ جنگ کی اگلی صفوں میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ شہید قاسم سلیمانی نے مغربی ایشیائی خطے کی از سر نو انجینئرنگ کی، داعش کی نام نہاد خلافت کے غیر اسلامی نظریہ کو شکست دی، اسلامی مزاحمت کی جڑیں مضبوط کیں۔
شہید قاسم سلیمانی کی وجہ سے ہی اسرائیل جارحیت، تسلط پسندی اور قبضے پر مبنی پالیسی چھوڑ کر دفاعی پالیسی اپنانے پر مجبور ہوا، شہید کے مسئلہ فلسطین سے متعلق اسٹریٹجک کردار نے امام خمینی (رہ) کے نظریئے (مذاکرات کی بجائے مسلح جدوجہد) کو عملی جامہ پہنایا، لبنان میں عوامی مزاحمتی قوت حزب اللہ کو مضبوط کرنے میں قاسم سلیمانی کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ایک عام حریت پسند پاکستانی شہری بھی جنرل سلیمانی کا گرویدہ دکھائی دیتا ہے۔ جنرل سلیمانی نے اپنی زندگی میں جو کیا، وہ صرف اور صرف خدا کی رضا اور اسلام کی تحفظ کی خاطر تھا۔ اگر یوں کہا جائے کہ جنرل قاسم سلیمانی تعلیمات محمد (ص) و آل محمد (ع) کے مطابق ایک مجسم مجاہد اسلام کی جیتی جاگتی تصویر تھے، تو غلط نہ ہوگا۔ اسی بناء پر قاسم سلیمانی سے پاکستانی عوام کا رشتہ ایک روحانی تعلق پر مبنی تھا، جو سرحدوں کا محتاج نہیں ہوتا۔