پاکستان کیخلاف تازہ ترین پابندیوں اور ایف اے ٹی ایف کے چنگل میں پاکستان کو پھنسوانے کیلئے سعودی وزارت خارجہ بھارت کیساتھ کھڑی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مہرہ ہونے کے باوجود سعودی شہزادوں کو کوئی راہ نہیں سوجھ رہی۔
شیئرینگ :
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
بشکریہ: اسلام ٹائمز
پاکستان سمیت خطے کا امن 1980ء سے افغانستان میں روسی مداخلت اور امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے تہ و بالا ہے۔ ہر دس سال بعد افغانستان میں امن کے نام پر امریکی انتظامیہ خطے کے ممالک اور افغان گروپوں کو الگ الگ توڑ کر مذاکرات کے نام پر الجھاتی ہے، لیکن صورت حال جوں کی توں رہتی ہے۔ روس کیخلاف جنگ میں پاکستان کے دیرینہ دوست سعودی عرب کا کردار بڑا اہم رہا ہے۔ لیکن اس وقت رائے عامہ اس نتیجے پہ پہنچ چکی ہے کہ سعودی عرب فقط امریکی مفادات کیلئے استعمال ہونیوالی شہنشاہیت ہے، اسی عمل کے سائے سعودی حکومتیں اپنے دن پورے کرتی ہیں، ماضی کے امریکی پٹھو صدام اور قذافی کے انجام نے سعودی حکمرانوں کو مزید خوفناک، مستقل اور بھیانک صورتحال کے اندیشوں سے دوچار کر دیا ہے۔
خظے کا اہم ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو جہاں بہت سارے فوائد ملتے ہیں، وہاں ذمہ داریوں کو انجام دیتے دیتے کئی خطرات اور آفات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ علاقائی صورتحال میں بھارت کی پاکستان سے مخاصمانہ پالیسی روشن اور واضح ہے۔ یہ عام مخاصمت اور دشمنی نہیں، بلکہ بھارت ہمیشہ پاکستان کے وجود کے درپے رہا ہے۔ امریکہ جیسے دوست نما دشمن نے پاکستان کو دو لخت کروانے میں بھارت کا ساتھ دیا، روس کیخلاف جنگ میں روس کی شکست کیلیے مسلمان طاقتوں کو استعمال کیا، عربوں نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ پاکستان بقاء کی جنگ لڑتے لڑتے عظیم کامیابیوں سے ہمکنار ہوا۔ امریکی پالیسی سازوں نے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے پاکستان کو طفیلی ریاست بنائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بھارتی جارحانہ اقدامات کے سامنے جب بھی پاکستان ڈٹا، عربوں نے امریکی آشیرباد سے پاکستان کو عارضی امداد اور قرضوں کے نام پہ خود کفالت کی منزل سے دور رکھا۔ اس کا پس منظر بس یہی ہے کہ جب پاکستان دو لخت ہوا تو پاکستانی قیادت کو لاشعوری طور پر یہ قلق محسوس ہوا کہ اس ساری گیم میں امریکہ کا کردار ایک دشمن کا تھا۔ اس کے بعد پاکستان عالم اسلام کی قیادت کا میزبان بنا اور ایک دوسرے کو قریب کرکے مسلمانوں کو اپنی طاقت اور وسائل پر بھروسے کی راہ دکھائی۔ اس کے ردعمل میں امریکی کارپردازوں کی چال کامیاب ہوئی اور ساتھ ہی افغانستان میں روسی مداخلت نے علاقائی سیاست کو مزید پیچیدہ بنا دیا، یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا، اسی دوران پاکستان پر آمریت مسلط ہوگئی۔ اس طرح امریکہ کو خطے میں پنجے جمانے کا موقع بھی مل گیا۔
اس کے بالکل ساتھ ساتھ، یعنی اسی دوران سعودی عرب میں شاہ فیصل کے قتل کے بعد مکمل طور پر امریکی پٹھو شہزادے اور شہنشاہ مضبوظ ہوئے۔ عین اسی دوران انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے امریکی ایوانون میں زلزلہ برپا ہوا، امریکی سائے میں حکمرانی کرنیوالے عرب پٹھووں کی نیندیں اڑ گئیں، لیکن پاکستان، اسلامی انقلاب کے بعد ایران کیخلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنا، لیکن افغانستان میں روسی مداخلت اور پاکستان کی بقا کو لاحق خطرات کی وجہ سے پاکستان امریکی اور عربی بلاک سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران اور اس دوران پاکستان ایک ہی طرح کے چیلنجز، رکاوٹوں اور خطرات سے نبردآزما رہے۔ بدقسمتی سے ہم دو ہمسایہ اقوام کے درمیان اسلامی رشتوں کے باوجود غلط فہمیاں موجود رہیں۔
اصل شکوہ عرب دوستوں سے ہے، لیکن پاکستان کی عرب ممالک کے حوالے سے بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ استعماری چنگل سے مسلمان ممالک اور زمینوں کی آزادی اور اپنی ہی منتخب عوامی حکومتیں نہ صرف مسلمان ممالک بلکہ پورے عالم اسلام کے وقار، استحکام اور ترقی و خوشحالی کے لیے واحد حل ہیں۔ دہائیاں گذرنے کے بعد موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو صورتحال کئی مراحل اور حوادث کے بعد بالکل نیا رخ اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان، ایران، چین، روس اور ترکی ایک الگ بلاک کے طور پر جڑ چکے ہیں۔ امریکہ کو بالآخر پسپائی کا سامنا ہے۔ چین کی ابھرتی طاقت، ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں اور سی پیک نے پاکستان کی پوزیشن کو مکمل طور پر واضح کر دیا ہے۔ اب امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر عالمی اتحادیوں کی تائید کے باوجود بھی روس اور چین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، بلکہ ایسے طریقے سوچنے پر مجبور پر کہ یہاں سے نکل سکے۔
افغانستان میں امن عمل جاری ہے، چین کے تعاون سے پاکستان کی مشکلات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ لیکن امریکہ پاکستان جیسے اتحادی سے محروم ہوچکا ہے، چین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، اب امریکی خفت مٹانے کیلئے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنیکے لیے بھارت کو استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب چین نے امریکہ کی چھتری تلے اپنی حکومتیں چلانے والے عرب ممالک کے متعلق اپنی پوزیشن بالکل واضح رکھی ہوئی ہے، اسی لیے سعودی عرب کی بجائے ایران کو سی پیک منصوبوں میں حصہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ، امریکہ کے حواری عرب ممالک اور پاکستان کا ازلی دشمن بھارت تلملا رہے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کی طرح پاکستان بھی عالمی استعمار امریکہ کیوجہ سے جن مسائل، مصائب، پابندیوں اور سازشوں کا شکار تھا، ان کا مقابلہ کرکے آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن عرب ممالک کا کردار اب بھی امریکی پالیسیوں کے عین مطابق ہے۔ اب پاک بھارت کشیدگی کو کم کروانے کے نام پر اسرائیل نواز سعودی وزیر خارجہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کیلئے مثبت کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
حالانکہ پاکستان کیخلاف تازہ ترین پابندیوں اور ایف اے ٹی ایف کے چنگل میں پاکستان کو پھنسوانے کیلئے سعودی وزارت خارجہ بھارت کیساتھ کھڑی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مہرہ ہونے کے باوجود سعودی شہزادوں کو کوئی راہ نہیں سوجھ رہی، داخلی طور شدید بحران کا شکار ہیں، حکومتیں لڑکھڑا رہی ہیں، تیل کی دولت کے باوجود معاشی محلات زمیں بوس ہوتے نظر آرہے ہیں، سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستان، چین، روس، ایران اور ترکی کے نئے وجود میں آنے والے بلاک سے خائف ہیں، اسرائیلی غاصب ریاست کو بچانے میں ناکام رہے ہیں، عیش و عشرت کی زندگی کھو جانے کا ڈر ہے، غلطیوں پہ غلطیاں کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کا بھارت کیساتھ بات چیت کا بیان اور دوست ممالک کے تعاون کا ذکر، سعودی وزیر خارجہ کے بیان کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے، ضروری ہے کہ ہم اس صورتحال کو واضح رکھیں اور واضح پالیسی اختیار کریں۔ بیساکھیوں سے جان چھڑانے کا وقت ہے، ورنہ ترقی کا عمل شروع نہیں ہوسکے گا۔