قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے، یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔
شیئرینگ :
تحریر: سید اسد عباس
بشکریہ: اسلام ٹائمز
23 مارچ یوم پاکستان کے عنوان سے معروف ہے، جس کا اہم ایونٹ افواج پاکستان کی پریڈ ہوتی ہے، یہ تقریب اگرچہ پاکستان کی فوجی پیشرفت اور دفاع کی صلاحیت کی آئینہ دار ہے، تاہم اس روز کا ایک سیاسی اور عوامی پس منظر بھی ہے۔ 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں جو کہ بعد میں یادگار اور مینار پاکستان کے نام سے معروف ہوا میں برصغیر کی مسلم جماعتوں کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی گئی۔ یہ قرارداد بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے معروف ہوئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس قرارداد میں لفظ پاکستان کہیں نہیں تھا بلکہ اسے یہ نام برہمنی اخبارات نے دیا۔ پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی نے قبل ازیں اپنے ایک مجوزہ منصوبے میں دیا تھا۔ بہرحال اس قرارداد کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے عليحدہ وطن کے حصول کا مطالبہ کیا، جس کے سات برس کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سے 1937ء کے عام انتخابات تک برصغیر کے مسلمانوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ انگریز سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ ہمیں برہمن سامراج سے بھی آزادی حاصل کرنی ہے۔ اگر مسلمان فقط انگریزوں سے آزادی حاصل کرتے ہیں تو یہ آزادی ادھوری ہوگی۔ آج وقت نے ثابت کیا ہے کہ اگر اس وقت مسلمان برہمنی سامراج سے آزادی کا اصولی فیصلہ نہ کرتے تو پاکستان کے مسلمانوں کی حالت کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں سے قطعی مختلف نہ ہوتی۔ برہمن سامراج سے آزادی کے احساس نے شدت 1936ء/1937ء میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پکڑی، جب مسلمانوں کو برصغیر کے کسی بھی صوبے میں اقتدار نہ ملا۔ کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی، نیز سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے، کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔
البتہ پنجاب میں سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کی جیت ہوئی۔ اس سے مسلمانوں کی جماعت مسلم لیگ کے اس دعوے کو بھی زک پہنچی کہ وہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہیں۔ اس دوران میں کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سرشار تھی، ایسے اقدامات کیے، جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کر دی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی۔ مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔
دوسری جنگ عظیم میں حمایت کے عوض اقتدار کی بھرپور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی سامراج اور برہمن اشرافیہ کے درمیان مناقشہ ہوا، جس کے سبب کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی۔ اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 3 روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔ اجلاس سے 4 روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی، جس کو روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں چلائیں۔ 35 کے قریب خاکسار شہید ہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی بر سر اقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔
موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے، یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔ دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا، جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔
قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے، جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔ مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یو پی کے مسلم لیگی رہنماء چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی ۔اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔