معاہدے کی رو سے چین اور ایران تجارت، توانائی، سکیورٹی، انفراسٹرکچر سمیت مختلف شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے، چین آئندہ پچیس سال کے دوران ایران میں چار سو بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرے گا۔
شیئرینگ :
تحریر: سید کاشف علی
بشکریہ: اسلام ٹائمز
چین اور ایران نے پچیس سالہ دو طرفہ تعاون اور اسٹراٹیجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر بلآخر دستخط کر دیئے، چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے ہمراہ تہران میں معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کی رو سے چین اور ایران تجارت، توانائی، سکیورٹی، انفراسٹرکچر سمیت مختلف شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے، چین آئندہ پچیس سال کے دوران ایران میں چار سو بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرے گا، جس کے بدلے میں ایران چین کو سستا خام تیل فراہم کرے گا۔ چین ایران کے توانائی، انفراسٹرکچر، بینکنگ سمیت متعدد شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کرے گا، دونوں ممالک سکیورٹی کے شعبے میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کریں گے اور انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی ہوگا۔
سب سے پہلے ایران پر اس معاہدے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں، ٹرمپ انتطامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب سے مل کر ایران پر زیادہ سے زیادہ دباو کی حکمت عملی اپنا رکھی تھی، جسے بائیڈن انتظامیہ نے بھی جاری رکھا ہوا ہے، اس پالیسی کا بنیادی مقصد سیاسی اور معاشی لحاظ سے ایران کو تنہا کرکے وہاں پر اسلامی انقلابی حکومت کا تختہ الٹنا ہے، تین سال قبل امریکہ، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر نکل گیا، ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئیں اور ایران سے تجارت کرنے والے ممالک اور کمپنیوں کو بھی سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی، نتیجتاً ایرانی تیل کے بھارت اور جاپان جیسے بڑے خریداروں نے ایران سے تیل کی خریداری بند کر دی، امریکی پابندیوں کے خوف سے یورپی کمپنیوں نے ایران میں جاری منصوبوں کو بند کر دیا۔
امریکہ اپنی دانست میں ایرانی معیشت کا گلہ گھونٹنے میں کامیاب ہوگیا، تاہم ان پابندیوں نے ایرانی معیشت کو خود کفالت کے راستے پر گامزن کر دیا، امریکہ کے خلاف عسکری مزاحمت کے ساتھ ساتھ مزاحمتی معیشت کا نظریہ بھی سامنے آگیا، ساتھ ہی ایران نے مشرق میں نئے اتحاد تشکیل دینے پر مزید تیزی سے کام شروع کر دیا۔ حالیہ ایران چین اسٹراٹیجک پارٹنرشپ سے ایران کو تنہاء کرنے کی امریکی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچے گا، چین کا شمار تیل درآمد کرنے والے جبکہ ایران کا برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، ایران کو چین کی صورت ایک مستقل تیل کا خریدار میسر ہوگا، جبکہ چین کو رعایتی نرخوں پر تیل دستیاب ہوگا۔
چین اور ایران کے درمیان پارٹنرشپ سے پابندیوں کا شکار ایرانی معیشت کو سہارہ ملے گا، توانائی، انفراسڑاکچر اور بینکاری سمیت متعدد شعبوں میں چینی سرمایہ کاری سے خود کفالت کے سفر پر گامزن ایرانی معیشت سے امریکی پابندیوں کے منفی اثرات زائل ہوں گے، مضبوط معیشت سے ایران کی اسلامی انقلابی حکومت مزید مضبوط ہوگی اور ایران کے اندر موجود امریکہ اور مغرب نواز قوتیں کمزور ہوں گی۔ مضبوط ایرانی معیشت سے ایران اپنے پرامن جوہری اور میزائل پروگراموں کو کامیابی سے جاری رکھ سکے گا۔ معاشی طور پر مضبوط اور امریکی معاشی پابندیوں کے اثرات سے آزاد ایران مشرق وسطیٰ سمیت ہر خطے میں اپنے حلیفوں کی بہتر طور پر مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔
چین کو ایران کے ساتھ شراکت داری کے متعدد ثمرات حاصل ہوں گے، معاہدے کی رو سے ایران چین کو رعایتی داموں سستا تیل فراہم کرے گا، چین عالمی منڈی میں خام تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے، اوسطاً چین عالمی منڈی سے ایک کروڑ دس لاکھ بیرل خام تیل یومیہ خریدتا ہے، جس کی سالانہ قیمت 215 بلین ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ ایران سے معاہدے کی وجہ سے اسے تسلسل سے سستے خام تیل کی فراہمی ممکن ہوگی، جو کہ اس کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کا پہیہ چلائے رکھنے کی ضمانت ہوگا۔ مشرق وسطیٰ چین کے لیے ایک انتہائی اہم خطہ ہے، جہاں موجود ایرانی اثر و رسوخ چین کو امریکہ کا مقابلہ کرنے میں مدد دے گا، چین کی کوشش ہے کہ عرب ممالک سے بھی بہتر تعلقات استوار کرکے امریکی مفادات کو زک پہنچائے۔
معاہدے کی رو سے چین اور ایران نے سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبے میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے، ایران اور اس کے حلیف گروہوں کا مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کا مقابلہ کرنے کا وسیع تجربہ ہے، یہ ایک ایسا عامل ہے، جس پر چین کی نظر ہے۔ چین ایران کے مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کو اہمیت دیتا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی کے ضمن میں عسکری اور انٹیلی جنس تعاون سے افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات شدید زک پہنچے گی۔ ایران چین ڈیل کے مشرق وسطیٰ پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے، چین کا اثرورسوخ بڑھے گا، جبکہ امریکی، اسرائیلی اور سعودی مفادات کو زک پہنچے گی۔
امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب معاشی دباو کے ذریعے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام، میزائل ٹیکنالوجی اور مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثرورسوخ پر قدغن لگانا چاہتے ہیں، اسرائیل اور سعودی عرب چاہتے ہیں، ایران ظالمین کے خلاف برسرپیکار حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی اور یمن کی انصاراللہ جیسی تنظیمیوں کی مدد بند کر دے۔ ایک توانا ایرانی معیشت اور چین سے مضبوط شراکت داری سے مظلومینِ جہاں کی مدد کرنے کی ایرانی انقلابی پالیسی کو مزید تقویت ملے گی اور ایران نئی شد و مد سے استعماری قوتوں سے برسرپیکار اقوام کی مدد کرسکے گا۔ اسرائیل ایران کے پرامن ایٹمی اور میزائل پروگراموں کو اپنی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے، ایران پر ہمہ جہت دباو ڈالنے کا مقصد ایران کو ان پروگراموں کو ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے، مضبوط ایرانی معیشت ان پروگراموں کے تسلسل سے جاری رکھنے کی ضمانت ہوگی، جس سے یقیناً اسرائیل اپنے آپ کو مزید غیر محفوظ تصور کرے گا اور جارحیت کی پالیسی ترک کرکے دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہوگا۔
امریکہ نے ایران چین اسٹراٹیجک شراکت داری کو ثبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ چین پر دباؤ ڈالا، ایران سے معاہدے کی صورت چینی کمپنیوں کو پابندیوں کی دھمکی بھی دی۔ گذشتہ سال جولائی میں جب معاہدہ حتمی مراحل میں تھا، اس وقت نیویارک ٹائمز کے ذریعے اس معاہدے کے ڈرافٹ کو لیک کروایا، عالمی میڈیا میں اس معاہدے کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی، امریکہ نواز تجزیہ کاروں نے اسے ایران کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف قرار دیا۔ امریکہ نے ایران کے اندر سے دباؤ بڑھانے کے ہتھکنڈے استعمال کیے، لیکن امریکہ کو منہ کی کھانا پڑی۔ چین نے تمام تر دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے اپنے مفاد میں معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ جس سے امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی حکمت عملی اور ایران کو تنہا کرنے کی پالیسی مکمل ناکام ہوگئی۔ چین ایران اسٹراٹیجک پارٹنرشپ امریکہ کی بہت بڑی ناکامی اور ایران کی عظیم کامیابی ہے۔ اسے خطے میں امریکی تابوت میں آخری کیل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔