مہدی موعود(عج) کا عقیدہ، تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک مسلم عقیدہ ہے ۔اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فردقیام کرے گا۔
شیئرینگ :
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
بشکریہ: وفاق ٹائمز
مہدی موعود(عج) کا عقیدہ، تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک مسلم عقیدہ ہے ۔اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فردقیام کرے گا جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اوراس کا لقب مہدی ہوگا جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔ امام مہدی (عج)کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ہی نہیں رکھتے بلکہ اہل سنت کےبہت سےمشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ(عج) کی ولادت باسعادت سےمتعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں جیسے: ابن حجر ہیثمی (الصواعق المحرقہ)سید جمال الدین(روضۃ الاحباب)ابن صباغ مالکی (الفصول المہمۃ)سبط ابن جوزی(تذکرۃ الخواص ) وغیرہ۔امام زمانہ(عج)کی غیبت کےمنکرین کا اعتراض ہے کہ امام غائب کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے امام کا ان کے درمیان موجود ہونا ضروری ہے تاکہ امام تک لوگوں کی رسائی ہو۔
ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ عج کے اعتراض کا اجمالی جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
۱۔امام زمانہ(عج)کی غیبت اور آپ(عج)کا شیعوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کےدرمیان کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کے اولیاء خدا سے بہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے ۔ بنابریں عصرغیبت میں بھی امام زمانہ{عج}کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ {عج}کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ {عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی چیزمانع نہیں ہے ۔ امام زمانہ {عج} کا لوگوں کےامور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جو آپ {عج}کی رہبری کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔محقق طوسی رہ تجرید الاعتقاد میں لکھتےہیں:(وجوده لطف و تصرفه لطف آخر و عدمه منا) امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے ۔ {یعنی امام زمانہ{عج}بھی حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا لیکن پھربھی وہ امت کے لئے فائدہ مند ہیں}
۲۔ امام{عج} کے پیروکاروں کا امام{عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے کےلئے ضروری نہیں کہ آپ{عج}تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ{عج}کےساتھ رابطہ قائم کر سکتا ہو اور وہ آپ{عج}کےوجود سےفیض حاصل کرے تودوسرے لوگ بھی ان افرادکے ذریعے آپ{عج} کےوجودکے تمام آثار و برکات سےبہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ نکتہ شیعوں کے بعض نیک اورشائستہ افراد کی آپ{عج }کےساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے ۔
۳۔ امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اوربلا واسطہ کریں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعےسے یہ کام انجام دیتے تھے ۔ ائمۂ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنےنمائندے منتخب فرماتے تھے جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے۔اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا ۔ اسی وجہ سے امام زمانہ{عج}بھی اپنے نمائندوں کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتےہیں جیساکہ غیبت صغری کے زمانے میں آپ {عج} نواب اربعہ {نیابت خاصہ}کے ذریعے اور غیبت کبری کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین {نیابت عامہ}کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتےہیں۔
۴۔ شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مرادیہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔بے شک یہ اعتقاد(کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتےلیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں نیز آپ {عج} کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں کیونکہ آپ{عج} کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے)
۵۔امامت کے اہداف میں سےایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے ۔امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنےوالے افراد کو اپنی طرف جذب کر کے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔واضح ہے کہ انسان کا اس طرح ہدایت سے ہمکنار ہونےکے لئےضروری نہیں کہ وہ امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے ۔
گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ {عج}کو بادل کے پیچھے مخفی روشن سورج سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے۔اگرچہ بادل کے پیچھے مخفی سورج سے انسان مکمل طور بہرہ مند نہیں ہوتا ہےلیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔بہر حال امام زمانہ{عج} کے وجود کے آثاروبرکات سے بہرہ مند نہ ہونےکا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کافراہم نہ ہونا ہے جس کی وجہ سےلوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام،کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سےاس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔ خواجہ نصیر الدین طوسی رہ آپ {عج} کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں:(واما السبب غیبته فلایجوز ان یکون من الله سبحانه و لا منه کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظهوریجب عند زوال السبب) لیکن یہ جائزنہیں کہ امام زمانہ{عج} کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ{عج} کی طرف سے ہوجیسا کہ اشارہ ہوا کہ اس کی وجہ خود عوام (لوگ)ہے کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرناہی اس کا سبب ہےاور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی توظہور واجب ہو جائے گا ۔
گذشتہ بیانات امام زمانہ{عج}کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثارتھےلیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں ۔اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔ اسی بنا پر روایات میں موجودہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر ایک لحظہ کےلئےبھی زمین حجت خدا سے خالی ہوتووہ اپنے اہل سمیت نابود ہو جائے گی۔(لو لا الحجة لساخت الارض باهلها)یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہےجو کہ بعض دعاؤں میں موجود ہے:(بیمنه رزق الوری و بوجوده ثبتت الارض و السماء)امام زمانہ{عج}کے وجود کی برکت سے ہی موجودات رزق پا رہے ہیں اورآسمان و زمین بر قرار ہیں ۔
امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ ہیں ،خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ ہیں ،جن برکات و فیوضات الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی ہے امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔لہذا امام زمانہ{عج}کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ{عج} کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہےکہ اس طویل مدت میں کبھی خدا کے بندے الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہے اور امام کے وجود کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد ،بحث امامت
2۔ کمال الدین ،شیخ صدوق ،باب 45۔ حدیث 4 ،ص485
3۔ الرسائل،سید مرتضی،ج2،ص297 – 298
4۔ اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
5۔ اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
6۔ نوید امن و امان،آیۃ اللہ صافی گلپائیگانی،ص 148