تہران نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں کرے گا جس میں امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ہٹائے جانے کی بات رکھی جائے گی اور نہ ہی ایران امریکا سے کسی طرح کے مذاکرات انجام دے گا-
شیئرینگ :
اسلامی جمہوریہ ایران ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں کرے گا جس میں امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ہٹائے جانے کی بات رکھی جائے گی۔
ایران کے خلاف رفتہ رفتہ امریکی پابندیاں ہٹائے جانے سے متعلق ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تہران نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں کرے گا جس میں امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ہٹائے جانے کی بات رکھی جائے گی اور نہ ہی ایران امریکا سے کسی طرح کے مذاکرات انجام دے گا-
ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا اٹھارواں اجلاس جمعہ دو اپریل کو یورپی یونین کے فارن ایکشن روس کے نائب سربراہ انرکا مورا کی صدارت میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل اور ایران چین فرانس جرمنی روس اور برطانیہ کے نائب وزرائے خارجہ اور وزارت خارجہ کے سیاسی امور کے ڈائریکٹروں کی شرکت سے آنلائن منعقد ہوا۔
اس اجلاس کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکا کی مکمل واپسی کے موضوع پر معاہدے کے فریقوں نے صلاح مشورہ اور بات چیت پر آمادگی ظاہر کی ہے اس سلسلے میں ایران کے ایک باخبر ذریعے نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے آٹھ جنوری کے خطاب اور اس خطاب میں آپ کی تاکیدات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کی جانب سے ایک ساتھ پابندیاں اٹھائے جانے اور اس بارے میں سچائی سامنے آنے کے بعد ہی اپنے ایٹمی وعدوں پر دوبارہ عمل کرنا شروع کرے گا۔
ایران کے اس باخبر ذریعے اور اعلی عہدیدار نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا کوئی بھی ایسا فیصلہ جو ایران کے خلاف امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ختم اور امریکہ کے ساتھ بالواسطہ طور پر مذاکرات پر مبنی ہو گا، قبول نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب ایران کے نائب وزیر خارجہ نے امریکی پابندیوں کی منسوخی کو ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کے لئے پہلا قدم قراردیا ہے-
ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے جواس اجلاس میں ایرانی وفد کی سربراہی کر رہے تھے ، ایک بار پھر ایران کے اصولی موقف کی وضاحت کی اور امریکی پابندیوں کی منسوخی کو ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کی سمت پہلا قدم قرار دیا۔سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران ، پابندیاں منسوخ ہوتے ہی ان تمام اقدامات کو روک دے گا جو اس نے پابندیوں کی تلافی کے طور پر شروع کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی سمجھوتے میں امریکہ کے واپس آنے کے لئے کسی گفتگو یا مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ امریکہ جس طرح سمجھوتے سے باہر نکلا ہے اسی طرح وہ ایٹمی سمجھوتے میں واپس آسکتا ہے اور جس طرح اس نے ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیاں لگائی ہیں اسی طرح انہیں ختم کرسکتا ہے۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی جوہری معاہدے میں تعطل کے دور ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جوہری معاہدے میں گفتگو تکنیکی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور ماضی جیسی صورتحال اب نہیں رہی جس سے دکھائی دیتا ہے کہ تعطل دور ہونے والا ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔
چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ، ایران کے خلاف پابندیاں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی اپنی شکست خوردہ پالیسیوں سے دستبردار ہونے پر تیار ہے؟؟