عض ممالک کے وزرائے خارجہ نے امریکہ اور ایران کے درمیان پیغامات کے تبادلے کی کوشش کی
اب ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں جہاں امریکی فریق خیر سگالی کی بات کر رہا ہے اور یہ کہ ان کے پاس کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ضروری ارادہ ہے، لیکن ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ اس خیر سگالی عملی طور پر کیا جائے۔
شیئرینگ :
ایرانی وزیر خارجہ "حسین امیر عبداللہیان" نے کہا ہے کہ بعض ممالک کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ مہینوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان پیغامات کے تبادلے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ عراقی وزیرر خارجہ "فواد حسین" بھی امریکی پیغام کے حامل تھے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ارنا نمائندے سے ایک خصوصی انٹرویو میں ایرانی صدر سید "ابراہیم رئیسی" اور ان کے فرانسیسی ہم منصب "ایمانوئل میکرون" سے حالیہ ملاقات کے بارے میں کہا کہ اس ملاقات میں میکرون نے اپنے پیش کردہ خیالات کے ساتھ سب سے پہلے صدر کی اعلی سطح پر ایرانی فریق کا نقطہ نظر سننے کی کوشش کی، اور پھر، انہوں نے اپنے ذہن میں آنے والے خیالات جو معاہدے کے حصول میں مشترکہ نقطہ نظر پہنچنے کی ترقی میں مدد کر سکتے ہیں، کو پیش کیا اور اس طرح دونوں صدور نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس انٹرویو کے اہم ترین حصے درج ذیل ہیں؛
* بعض ممالک کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ مہینوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان پیغامات کے تبادلے کی کوشش کی۔ عراقی وزیرر خارجہ بھی امریکی پیغام کے حامل تھے۔
* اب ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں جہاں امریکی فریق خیر سگالی کی بات کر رہا ہے اور یہ کہ ان کے پاس کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ضروری ارادہ ہے، لیکن ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ اس خیر سگالی عملی طور پر کیا جائے۔
* یورپی یونین کے کوراڈینیٹر "جوزف بورل" نے حالیہ مہینوں میں تمام فریقین بالخصوص امریکہ اور ایران کو ایک متن پیش کیا۔ امریکی فریق کی رائے حاصل کرنے کے بعد، ہم نے دیکھا کہ بعض مسائل میں جو ہمارے لیے کلیدی اور بنیادی ہیں، ان مسائل میں امریکی فریق کیجانب نے متن میں کچھ ابہام پیدا کر دیا ہے۔ ہم نے اس متن کو "مضبوط" کرنے کی کوشش کی؛ اس طرح کہ متن میں توازن نہ بدلے، ہم مواد میں بھی تبدیلی نہیں کرتے، ہمارے پاس جو معاہدہ ہے اس کا فریم ورک برقرار ہے، لیکن اپنی سرخ لکیروں کو برقرار رکھتے ہوئے اس متن کو "مضبوط" کرنا تھا۔
* مضبوطی کی ایک جہت "وضاحت" تھی تاکہ جب متن شائع نہ ہوگیا ہے تو ایک متن کی 10 تشریحات سامنے نہ آئیں، لیکن کم از کم، اس متن کے قارئین کی اکثریت کو یہ محسوس ہونا ہوگا کہ ان کے پاس ایک ہی فہم ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے لیے اس متن سے زیادہ اہم معاہدوں کا نفاذ ہے۔
* ہم ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور ہم ایک اچھے، مضبوط اور مستحکم معاہدے تک پہنچنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے، ہم مذاکرات کی میز نہیں چھوڑیں گے، اور یہ امریکی فریق ہے جسے اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا اس میں اس معاملے پر کوئی فیصلہ کرنے کی ضروری ہمت ہے یا نہیں؟
* میں نے امریکی میڈیا اور عراقی وزیر خارجہ جو کہ امریکی پیغام کے حامل تھے، سے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ امریکی فریق ایک طرف معاہدے کے بارے میں بات کرے اور یہ کہے کہ معاہدہ اور علاقائی سلامتی دو اہم مسائل ہیں جن پر امریکہ غور کر رہا ہے اور دوسری طرف ایران میں پیش آنے والے حالیہ مسئلے میں بعض مداخلت پسندانہ کارروائیاں کریں۔ یہ افسوسناک واقعہ جو ایک ایرانی لڑکی کے ساتھ پیش آیا جو ہم سب کی بچی اور بہن تھی؛ بدقسمتی سے بعض غیر ملکی جماعتیں اس پر سوار ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور اشتعال انگیز حرکتیں کرنے کی کوشش سے عوام کے جذبات کے اظہار کو تشدد، افراتفری اور عدم تحفظ میں بدل دینا چاہتے ہیں۔
* میں نے سخت تنقید کی کہ امریکی فریق کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ خطے کی سلامتی کی تلاش میں ہے اور کسی معاہدے تک پہنچنے کا عزم رکھتے ہیں یا یہ تصور کرتا ہے کہ وہ ایسی مصنوعی ماحول جو پیدا ہوتے ہیں اور غیر ملکی جماعتیں افراتفری اور انتشار کی لپیٹ میں ہیں، کا فائدہ اٹھانے کے در پے ہیں۔
* اوباما نے بھی چند سال پہلے یہ غلطی کی تھی۔ ایک طرف انہوں نے ملک کے اعلی حکام میں سے ایک کو خط لکھا اور دوسری طرف ایک ایسا واقعہ جو سڑکوں پر پیش آیا اور لوگوں کا ایک گروہ افراتفری کی تلاش میں تھا، اس نے اوباما کو اپنے راستے سے ہٹا دیا اور وہ تھوڑی دیر کے لیے اس عمل سے متاثر ہوا تھا۔
* وقت کے لحاظ سے، آج اگر امریکی فریق پیغامات کے تبادلے میں ایران کے مکمل طور پر منطقی فریم ورک کو قبول کرے، تو ہم جلد از جلد ویانا میں جوہری معاہدے میں شریک ممالک کے وزرائے خارجہ کو جمع کرنے اور مذاکرات کے اختتام اور اس کے نفاذ کے آغاز کا اعلان کرنے پر تیار ہیں۔ لیکن اب وقت کے عنصر کا کیا اثر ہے اور اس معاملے میں کس فریق کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے؟ میرے خیال میں گیند امریکی سائیڈ کے کورٹ میں ہے اور اس کا فیصلہ امریکی فریق کو کرنا ہے۔ ہم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کافی مذاکرات ہو چکے ہیں۔
* سعودی عرب جب بھی تہران میں سفارتخانہ دوبارہ کھولنے اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے تیار ہوتا ہے، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے ہماری بات چیت کا عمل حالات کے مطابق جاری رہے گا۔
* یوکرین کی جنگ کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے، حتی کہ ہم نے یوکرائن کی جنگ کے حوالے سے غیر جانبدارانہ موقف اختیار نہیں کیا۔ اس بحران کے آغاز سے ہی ہم نے جنگ کو روکنے کی کوشش کی۔
* جنگ پر ہماری پالیسی دوہرا معیار نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم افغانستان اور یمن میں جنگ اور ملک بدری کی مذمت کرتے ہیں، ہم اس جنگ کی جڑوں کو سمجھ کر یوکرائن کی جنگ کے سخت مخالف ہیں۔