12 نومبر 2011ء کو جب شام میں جنگ کے شعلے بھڑکنا شروع ہوئے اور دہشت گرد دمشق کی حدود تک پہنچ گئے، اس وقت اس یونین نے یہ سوچتے ہوئے کثرت رائے سے شام کی رکنیت معطل کر دی کہ بہت جلد بشار الاسد کی حکومت سرنگون ہو جائے گی
شیئرینگ :
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیظ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس اتحاد میں شام کی واپسی ممکن ہے۔
انہوں نے لبنانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بشار الاسد شام پر فوجی برتری حاصل کرنے اور اپنے دشمنوں کو دمشق پر قبضے سے روکنے کے بعد جنگ جیت چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عرب لیگ سے شام کی رکنیت کی معطلی کا فیصلہ جلد بازی تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس لیگ کے رکن ممالک کو شام کو ایک موقع دینا چاہئے تھا۔ اگر میں اس وقت عرب لیگ میں ہوتا تو کبھی بھی اس فیصلے کی حمایت نہ کرتا۔
واضح رہے کہ 12 نومبر 2011ء کو جب شام میں جنگ کے شعلے بھڑکنا شروع ہوئے اور دہشت گرد دمشق کی حدود تک پہنچ گئے، اس وقت اس یونین نے یہ سوچتے ہوئے کثرت رائے سے شام کی رکنیت معطل کر دی کہ بہت جلد بشار الاسد کی حکومت سرنگون ہو جائے گی۔
احمد ابو الغیظ نے بشار الاسد سے ملاقات کے امکان بارے کہا کہ جب بھی عرب لیگ میں شام کی واپسی ہو گی، یہ ملاقات بھی انجام پائے گی۔ اس سے قبل عرب لیگ کے قانون اور آئین کی بنیاد پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔
احمد ابو الغیظ نے عرب لیگ میں شام کی واپسی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔
عرب لیگ کے سربراہ نے کہا کہ دمشق حکومت پہلے سے زیادہ اب اس موضوع میں دلچسپی رکھتی ہے اور بہت ساری عرب حکومتیں بھی شام کے ساتھ دو طرفہ تعلقات بحال کر رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ابھی تک عرب لیگ میں شام کی واپسی ممکن ہے لیکن حتمی نہیں ہے۔
انہوں نے اس ضمن میں جدہ میں اردن، مصر اور عراق کی موجودگی میں خلیج فارس تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس کا حوالہ بھی دیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اجلاس شام کی عرب لیگ میں واپسی کے حوالے سے بلایا گیا تھا۔ جس میں بہت سے عرب ممالک نے شام کی واپسی کی مخالفت کی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل نے اس موضوع کے حوالے سے بعض عرب ممالک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ مراکش، کویت، قطر اور یمن سمیت کم از کم پانچ ممالک شام کی عرب لیگ میں واپسی کے مخالف ہیں۔ حالانکہ موجودہ صورت حال میں مصر، شام سے تعلقات بحال کرنے کے بعد بھی عرب لیگ میں دمشق کی واپسی کا مخالف ہے۔