صہیونی حکومت کو مستقبل قریب میں بڑے اقتصادی بحران درپیش ہیں
صہیونی ماہر معیشت ایس بریزس نے عبرانی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کی معاشی بنیادوں کو کمزور قرار دیا ہے اسی وجہ سے صہیونی حکومت کو مستقبل قریب میں بڑے اقتصادی بحران درپیش ہیں۔
شیئرینگ :
معاشی امور کے ماہر اور تجزیہ نگار نے اسرائیل میں جاری کشیدگی اور بدامنی کی وجہ سے صہیونی حکومت کو درپیش اقتصادی بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
صہیونی ماہر معیشت ایس بریزس نے عبرانی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کی معاشی بنیادوں کو کمزور قرار دیا ہے اسی وجہ سے صہیونی حکومت کو مستقبل قریب میں بڑے اقتصادی بحران درپیش ہیں۔
اقتصادی پالیسی کے مرکز کے سربراہ نے نتن یاہو کابینہ کی جانب سے اقتصادی اصلاحات کے منصوبے کے دیرپا اور منفی نتائج کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ اسرائیل میں ایک خاندان (خاندان نتن یاہو) ان اصلاحات اور نظام کے بارے میں فیصلے کرتا ہے اسی کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔ اسرائیلی اعلی حکام اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہی کررہے ہیں اور نتن یاہو کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے بجائے طاقت کو باپ سے بیٹے تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی موجودہ صورتحال اور اس کی سنگینی سے نتن یاہو بھی بخوبی باخبر ہیں۔ امریکی سابق وزیرخزانہ سے بھی اس حوالے سے گفتگو ہوتی ہے۔ وہ بھی تشویش میں مبتلا ہیں لیکن اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کررہے ہیں۔ انہوں نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت کو سنگین بحران درپیش ہے لیکن کوئی بھی اس حوالے سے بات چیت کے لئے تیار نہیں ہے۔ میں ابھی سے ہی آگاہ کررہا ہوں کہ ہم اقتصادی بدحالی کی جانب گامزن ہیں۔
ایس بریزس نے موجودہ اقتصادی حالت پر بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنا احتجاج جاری رکھوں گا۔ فوج کو بھی ان احتجاجات کا ساتھ دینا چاہئے۔
صہیونی چینل کان کے مطابق اس سے پہلے سینکڑوں صہیونی اقتصادی ماہرین نے دستخطی مہم جاری کرکے موجودہ اقتصادی صورتحال پر اپنی تشویش سے حکومت کو آگاہ کیا تھا۔ امیر یارون سمیت صہیونی بینکوں کے سربراہوں نے وزیر خزانہ کو بینکوں سے سرمایے کے اخراج کی شرح میں اضافے سے آگاہ کیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ صہیونی اخبار یدیعوت آحارونوت نے چند دن پہلے رپورٹ دی تھی کہ حالیہ ایام میں مقبوضہ علاقوں سے ہجرت کرکے بیرون ملک جانے والے 47 فیصد صہیونی واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم صہیونیوں سے رابطے کے ادارے کی جانب سے ہونے والی تحقیق کے مطابق دس لاکھ صہیونی بیرون ملک رہتے ہیں ان میں سے آدھا واپس اسرائیل آنے کا ارادہ ترک کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے باہر ان کی اقتصادی حالت بہتر ہے۔ اسرائیل میں جاری بحران اور اقتصادی بدحالی کی وجہ سے صہیونیوں کی اکثریت اپنے آبائی ملکوں میں واپس جانا چاہتی ہے۔
اس سے پہلے امریکی ادارے آئی اے ٹی اے نے ایک اسرائیلی ادارے کے ساتھ سروے کے بعد کہا تھا کہ صہیونی حکومت کے ٹیکنالوجی کے ادارے سے وابستہ نوے فیصد ملازمین اور افسران موجودہ حالات کی وجہ سے جلد بیرون ملک جانے کے خواہشمند ہیں۔ ان افراد کے مطابق صہیونی حکومت کو درپیش سیاسی بحران اور بدامنی کی وجہ سے وہ بیرون ملک منتقل ہونے پر مجبور ہورہے ہیں۔ امریکی ادارے کے مطابق اگر مذکورہ افراد اور ادارے بیرون ملک منتقل ہوجائیں تو صہیونی حکومت کو درپیش مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔