ہمارا عقیدہ میدانی مزاحمت بن گیا جس نے 1985 میں دشمن کو شکست دی
خطے کے کچھ لوگ اسرائیلی فوج کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے، یہ نظریہ خاص طور پر عرب فوج کی شکست کے بعد پیدا ہوا اور بہت سے لوگ اسرائیل کو لڑائیوں میں ناقابل تسخیر سمجھتے تھے۔
شیئرینگ :
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے غاصب صیہونی حکومت میں نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کی منظوری کا ذکر کرتے ہوئے اس حکومت کی صورتحال کو سنگین قرار دیا۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ بیداری، فہم اور عقائد کی جنگ ابتدا سے ہی موجود ہے کہا کہ اس قسم کی جنگ انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے جاری رہی ہے۔ خطے کے کچھ لوگ اسرائیلی فوج کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے، یہ نظریہ خاص طور پر عرب فوج کی شکست کے بعد پیدا ہوا اور بہت سے لوگ اسرائیل کو لڑائیوں میں ناقابل تسخیر سمجھتے تھے۔
سید حسن نصر اللہ نے پیر کی شام (24 جولائی 2023) کو محرم کے پہلے عشرے کی ساتویں رات بیروت کے جنوبی مضافات میں عاشورہ حسینی کے موقع پر ایک تقریر میں کہا کہ جب شعور اور آگاہی میں "تحریف" واقع ہوجاتی ہے تو ایک نیا عقیدہ پیدا ہوتا ہے جو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ 1982 میں جب اسرائیلی دشمن نے لبنان پر حملہ کیا اور بیروت میں داخل ہوا تو اس وقت لبنان میں ایک نسل ایسی تھی جو اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ قابض فوج کو شکست دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا عقیدہ میدانی مزاحمت بن گیا جس نے 1985 میں دشمن کو شکست دی اور 2000 تک بہت بڑی شکست تک جاری رہی، جب کہ اس قابض فوج کو عرب دنیا میں ایک ناقابل شکست فوج کے طور پر جانا جاتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لبنان میں مزاحمت نے خدا پر بھروسہ کرکے، جیلوں اور حراستی مراکز میں صعوبتیں برداشت کرکے دشمن کو شکست دی اور بہت سے لوگوں کے شعور اور یقین کو بدل دیا۔
سید حسن نصر اللہ نے توجہ دلائی کہ 2000 کے بعد عرب دنیا اور قابض ملک میں بیداری میں تبدیلی آئی جس سے آباد کار پے در پے بحرانوں کے ساتھ زندگی گزارنے لگے اور یہ صورت حال اس بات کا باعث بنی کہ آج غاصب اسرائیل نابودی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔
انہوں نے مزید زور دے کر کہا کہ فکری اور میڈیا وار دیگر عسکری اور اقتصادی جنگوں سے زیادہ شدید اور خطرناک ہے، کیونکہ یہ ذہن، شعور، عقائد اور ہر اس چیز کو نشانہ بناتی ہے جو انسان کے طرز عمل اور حیثیت کی تشکیل کرتی ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ جنگ مختلف ہے جس میں میڈیا، انٹرنیٹ، کتابیں، یونیورسٹی، مقالہ وغیرہ شامل ہیں اور ہم تمام میدانوں میں لڑ رہے ہیں اور یہ ایک میدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہل باطل نے ہمیشہ اہل حق کو اپنی آواز اور منطق دوسروں تک پہنچانے سے روکنے کی کوشش کی ہے، مثال کے طور پر ہزاروں سیٹلائٹ چینلز موجود ہیں، لیکن بعض چینلز جیسے المنار نیٹ ورک کو بلاک کیا جاتا ہے اور اسی طرح بعض ویب سائٹس کو ہٹا دیا جاتا ہے، حتی کہ مواصلاتی ذرائع میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں جن کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
نصر اللہ نے مزید کہا کہ حقائق کو لوگوں سے چھپانے، ان پر پردہ ڈالنے اور انہیں بدلنے کے لیے، باطل پرست لوگ مزاحمت کو دہشت گرد جب کہ دشمن کو ایک ایسے جمہوری موجود میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو فلسطین میں انسانی حقوق کا خیال رکھنے کے ساتھ اور انسانی حقوق کا مطالبہ بھی کرتا ہو۔
سید حسن نصر اللہ نے حقائق کو توڑ مروڑ کر افواہیں اور الزامات پھیلانے کی مثال دی، جو خبریں حزب اللہ پر جھوٹے الزامات، بندرگاہ کے دھماکے کے بارے میں شائع ہوئیں، انہوں نے اس واقعے میں حزب اللہ کے کردار کی تردید کی اور کہا کہ اس واقعے کے وقت کہ جب لوگ شہداء کی لاشوں کو اکٹھا کرنے میں مصروف تھے دشمن نے حزب اللہ کے اسلحے کا پروپیگنڈا کیا۔ مزاحمت کی اس وقت اور آج کی مدد نے لبنان کو قابل فخر اور باوقار بنا دیا ہے۔