پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری پر کام کیا جس میں ہمیں کامیابی ملی
صدر ایران آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے منگل کے روز ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے صحافیوں کے ساتھ تیسری پریس کانفرنس میں امام حسین علیہ السلام کے اربعین کی تعزیت پیش کی اور گزشتہ دو برسوں میں اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔
شیئرینگ :
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا ہے : ہم عوام کے روزگار اور ملک کی معیشت کو امریکہ اور کچھ یورپی ملکوں کے ارادوں سے نہيں جوڑیں گے۔
صدر ایران آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے منگل کے روز ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے صحافیوں کے ساتھ تیسری پریس کانفرنس میں امام حسین علیہ السلام کے اربعین کی تعزیت پیش کی اور گزشتہ دو برسوں میں اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا: 5 ہزار بند پڑے کارخانوں کو دوبارہ شروع کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوئے ۔
صدر ایران نے کہا: دشمن نے ایران کے خلاف دو حکمت عملی اپنائی ہے ایک تو ایران کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی اور دوسرے عوام میں مایوسی پھیلانے کی لیکن اس کی دونوں حکمت عملی ناکام رہی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو کوئي الگ تھلگ نہيں کر پایا۔
صدر نے کہا: ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایٹمی معاہدہ نہ ایسا معاملہ ہے جس پر ہم سب سے پہلے توجہ دیں اور نہ ہی ایسا معاملہ ہوگا جس پر ہم آخر میں توجہ دیں گے کیونکہ خارجہ امور میں ہمارے سامنے بہت سے معاملات ہيں جو سب کے سب حکومت کے ایجنڈے میں ہیں اور ہم سب پر کام کر رہے ہيں ۔
آيت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے کہا: ہم نے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری پر کام کیا جس میں ہمیں کامیابی ملی اور ہم نے اسلامی ملکوں سے اپنے تعلقات بھی بہتر کئے جس میں ایک مدت تک خلل پڑ گیا تھا۔
صدر نے بتایا کہ ان کی حکومت نے مشترکہ نظریات رکھنے والے ملکوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا اور کہا کہ پڑوسی اور مشترکہ موقف رکھنے والے ملکوں کے ساتھ ہمارے سیاسی و معاشی تعلقات بہت مختلف ہيں اور آج یوریشیا یونین میں سرگرمی، شنگھائی تعاون تظیم اور برکس میں ایران کی رکنیت سے یہ ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بے پناہ گنجائشوں کا مالک ہے جس کی وجہ سے دشمن، ایران کو الگ تھلگ کرنے میں کامیاب نہيں ہوا جس کا سب سے بڑا ثبوت ایران کی سیاسی و معاشی صورت حال ہے۔
صدر ایران نے کہا: عوام کو نا امید کرنے کے میدان میں بھی یہی صورت حال ہے۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ ہماری حکومت کی تشکیل کے کچھ مہینے کے اندر ہی پورے ایران میں پیٹرول پمپوں پر سائبر حملہ شروع کر دیا گيا اور عوام کو بھڑکانے کی کوشش کی گئي لیکن عوام نے بے حد سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا اور دشمن ناکام ہو گيا اور یہ سمجھ گيا کہ عوام حکومت کے ساتھ ہیں۔
صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا: دشمن کو یہ محسوس ہو گیا کہ ایران ترقی کر رہا ہے جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے حالیہ بیان میں فرمایا ہے کہ دشمن یہ سمجھ گیا کہ ہم تمام شعبوں میں ترقی کر رہے ہيں اس لئے اس نے ملک میں بلوؤں کی کوشش کی۔ دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ بلوؤں کے ذریعے کامیاب ہو سکتے ہيں یہاں تک کہ مغربی فریقوں نے مذاکرات کی میز چھوڑ دی اور بلوؤں سے امید لگا کر بیٹھ گئے انہیں لگا کہ وہ اس طرح سے اپنے مقصد تک پہنچ سکتے ہيں۔
انہوں نے کہا: حکومت کم آمدنی والے گھرانوں کے لئے پانی، گیس اور بجلی مفت کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے ۔
صدر سید ابراہیم رئيسی نے رشا ٹوڈے کے رپورٹر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: پابندیوں کے خاتمے کے لئے ہونے والے مذاکرات سے ہم کبھی نہيں ہٹے بلکہ دوسروں نے مذاکرات روکے لیکن اب وہ ہمارے ساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔
صدر نے کہا: ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں صرف پابندیوں کے خاتمے کا معاملہ ہی نہيں ہے بلکہ ہم پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات میں فروغ اور اس کے ساتھ ہی علاقائی و عالمی تنظمیوں میں رکنیت جیسے امور پر بھی توجہ دے رہے ہيں۔
صدر نے کہا: یہ جو کچھ لوگوں کا یہ خیال ہےکہ مسائل کا حل، امریکہ یا کچھ یورپی ملکوں کی خوشنودی سے وابستہ ہے تو یہ غلط فہمی ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم کسی کی مسکراہٹ کا انتظار نہیں کریں گے اور اپنے ملک اور عوام کی معیشت کو ان کے فیصلوں سے وابستہ نہيں کریں گے۔
صدر نے کہا: برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسی عالمی تنظیموں میں رکنیت یقینا ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو بے اثر کرنے میں اہم رول ادا کرے گی پھر بھی ہم پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات پر آمادہ ہيں لیکن دوسرے فریقوں کے فیصلوں کے انتظار میں ہرگز بیٹھے نہيں رہیں گے ۔
واضح رہے صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی کی اس پریس کانفرنس میں 250 ملکی و غیر ملکی صحافی موجود تھے۔
صدر سید ابراہیم رئيسی کی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ تیسری پریس کانفرنس تھی۔ وہ اسی طرح اپنی حکومت کے گزشتہ دو برسوں کے دوران مختلف واقعات اور مواقع پر 9 بار ٹی وی پر قوم سے خطاب کر چکے ہیں ۔