آپ نے شرط رکھی کہ خلافت کے امور میں مداخلت نہیں کروں گا۔ مجھے ولی عہد کہا جائے یا سکے پر میرا نام لکھ دیا جائے خطبے میں میرا نام لیا جائے لیکن عملی طور پر کسی کام میں شریک نہیں ہوجاوں گا اس طرح آپ نے اپنی عدم دلچسپی ظاہر کردی۔
شیئرینگ :
بشکریہ:مہر خبررساں ایجنسی
مدینہ سے مرو تک کے سفر کے دوران امام عالی مقام کو عوام سے دور رکھنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ لوگ شمع امامت کے پروانے کے گرد جمع نہ ہوجائیں۔
آج حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ شیخ صدوق نے رجا بن ضحاک کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے زیادہ پرہیزگار اور خدا کا ذکر کرنے والا نہیں دیکھا۔ جس شہر سے امام رضا علیہ السلام گزرتے، لوگ ان کی طرف آتے، سوال کرتے اور امام علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کا جواب دیتے اور روایت نقل کرتے تھے۔
رہبر معظم نے اپنی تقاریر میں امام رضا علیہ السلام کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔ اپنی کتاب 250 سالہ انسان میں رہبر معظم نے امام عالی مقام کی مجاہدت کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔
امام رضا علیہ السلام کی عمر 55 سال تھی۔ آپ کی امامت کی مدت 10 سال تھی جس میں آپ نے عالم اسلام پر گہرے اثرات چھوڑے اور لوگوں کو اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات سے روشناس کیا۔
آپ کی امامت کے آغاز میں لوگ کہتے تھے کہ جوانسال امام ان سخت حالات سے کیسے نبردآزما ہوسکے گا۔ ہارون رشید کا دور نہایت سخت تھا جس کی شمشیر سے خون ٹپکتا تھا۔ امام عالی مقام نے 19 یا 20 سال کے عرصے میں بنی عباس کی ظالم حکومت کے مقابلے میں اہل بیت کی تعلیمات کو عام کیا اور بنی عباس کے خلفاء آپ کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے۔
آپ کی فعالیت کی وجہ سے مامون نے مجبور ہوکر آپ کو اپنے قریب بلالیا۔ آپ کو شہید کرنے کا قصد نہیں رکھتا تھا۔ اللہ کا ارادہ تھا کہ اہل بیت رسول کا ایک ستارہ مدینہ سے دور دفن ہوجائے یہ اللہ کی مشیت تھی۔
شہید مرتضی مطہری نے اپنی کتاب سیرت ائمہ اطہار میں لکھا ہے کہ شیعہ سنی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے ولایت عہدی کو قبول کرنے کے بعد مامون کے اجلاس میں مخصوص خطبہ دیا۔ مختصر خطبے میں آپ نے اپنی پوزیشن واضح کردی۔ اس خطبے میں نہ مامون کا نام لیا اور نہ اس کا شکریہ ادا کیا جبکہ رسم یہ تھا کہ اس کا نام لیا جاتا یا شکریہ ادا کیا جاتا۔ ابوالفرج کہتا ہے کہ امام رضا کی بیعت کے لئے ایک دن مقرر ہوا۔ لوگ جمع ہوگئے۔ مامون نے اپنے ساتھ امام رضا کے لئے ایک نشست رکھی۔ سب سے پہلے اپنے بیٹے عباس بن مامون کو بیعت کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ایک علوی سید نے بیعت کی اسی ترتیب کے ساتھ علوی اور عباسی بیعت کرتے گئے۔ ہر بیعت کرنے والے کو مخصوص انعام بھی دیا گیا۔ اس کے بعد عوام کی بیعت کا موقع آیا تو مامون نے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ لوگ بیعت کریں۔ آپ نے فرمایا میرے جد امجد پیغمبر اکرم اس طرح ہاتھ بڑھاتے تھے۔
بیعت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد شعراء اور خطباء نے امام علیہ السلام کی شان میں مدح سرائی کی۔ اس کے بعد مامون نے درخواست کی کہ عوام سے خطاب کریں۔ مامون چاہتا تھا کہ امام ان سے تائید طلب کرتے۔ امام نے اللہ کی حمد وثنا پر اکتفا کیا۔
بنی عباس کی پالیسی حقائق چھپانے پر مبنی تھی لہذا بہت سارے حقائق پنہاں ہیں۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ ولایت عہدی کا مسئلہ امام کی طرف سے پیش نہیں کیا گیا بلکہ مامون نے پیشکش کی تھی۔ مامون ماوراء النھر کے علاقوں میں رہائش پذیر تھا۔ وہاں سے اپنے آدمیوں کو مدینہ بھیجا تاکہ امام رضا علیہ السلام کو مرو لائیں۔ آپ کو کوئی اختیار نہیں دیا گیا تھا حتی کہ آپ کا راستہ بھی پہلے سے مشخص کیا گیا تھا اور ان راستوں سے لایا گیا جہاں شیعہ کم بستے تھے۔
سختی سے ہدایت دی گئی تھی کہ امام کا قافلہ شیعہ نشین علاقوں سے گزارا نہ جائے۔ آپ کو قافلے والوں سے الگ رکھا جاتا تھا۔ اس وقت مامون حضرت امام رضا علیہ السلام کو ولایت عہدی کی پیشکش کی۔ مامون پہلے کہا کہ میں خلافت کو آپ کے حوالے کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد کہا کہ اگر خلافت قبول نہیں ہے تو ولایت عہدی کو قبول کریں۔ امام نے انکار کردیا۔ البتہ امام کے اس عمل میں کیا مصلحت تھی اور کیوں انکار کیا؟ اس کے بارے میں ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں البتہ عیون اخبار الرضا میں منقول روایات کے مطابق جب مامون نے خود کو خلافت سے برخاست کرکے امام کو اپنی جگہ منصوب کرنے کا کہا تو امام نے فرمایا کہ خلافت میں تمہارا کوئی حق ہے یا نہیں؟ اگر خلافت پر تمہارا حق ہے تو یہ ایک الہی عہدہ ہے اور خدا کا عطاکردہ عہدہ کسی اور کو تفویض نہیں کرسکتے ہو اور اگر تمہارا کوئی حق نہیں ہے تو بھی کوئی حق نہیں کہ جس چیز پر تمہارا کوئی حق نہیں اس کو کسی اور کے حوالے کردو۔
مامون نے دھمکی استدلال کی اور حضرت علی کی خلافت کے موقع پر پیش آنے والے شورا کے واقعے کا حوالہ دیا اور کہا کہ چنانچہ خلیفہ دوم نے حکم دیا تھا کہ چھے نفر پر مشتمل شورا اگر کوئی فیصلہ نہ کرسکے یا اس میں شامل کوئی رکن سرپیچی کرے تو ابو طلحہ انصاری ان کی گردن اڑا دے گا۔ اس وقت آپ بھی اپنے جد امجد علی علیہ السلام کی طرح مجبور ہو پس اپنے جد کی پیروی کرتے ہوئے فیصلہ کریں۔ مامون تاریخ اور ادبیات سمیت احادیث سے بھی آگاہ تھا۔ ہو جانتا تھا کہ اگر میں خلیفہ عمر کی سیرت پر عمل کروں تو لوگ قبول کریں گے پس اگر امام ولایت عہدی سے انکار کرتے تو آپ کی گردن اڑا دی جاتی لہذا دھمکی کے بعد آپ نے قبول کرلیا۔
آپ نے شرط رکھی کہ خلافت کے امور میں مداخلت نہیں کروں گا۔ مجھے ولی عہد کہا جائے یا سکے پر میرا نام لکھ دیا جائے خطبے میں میرا نام لیا جائے لیکن عملی طور پر کسی کام میں شریک نہیں ہوجاوں گا اس طرح آپ نے اپنی عدم دلچسپی ظاہر کردی۔
لبنان میں علامہ سید عبدالحسین شرف الدین کے بعد شیعوں کی قیادت سنبھالنے والے امام موسی الصدر نے امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر ایک تقریر میں کہا تھا کہ اہل بیت ظلمت اور تاریکی میں ہدایت کا پرچم ہے۔ جب امام رضا علیہ السلام کی باری آئی تو جدید واقعہ رونما ہوا۔ خلافت عباسیہ کا دور تھا اور اسلامی تمدن اوج پر تھا۔ مامون کو درپیش مشکل یہ تھی کہ ہارون رشید نے مشرقی حصہ مامون اور بغداد امین کے حوالے کیا تھا اور ایک دوسرے کی حمایت کی وصیت کی تھی لیکن چنانچہ حکومت میں شراکت داری نہیں ہوتی ہے لہذا امین نے مامون کو معزول کردیا۔ مامون نے اہل خراسان کی مدد سے امین کے خلاف بغاوت کی اور بغداد فتح کرلیا۔ امین کو قتل کرنے کے بعد خود عالم اسلام کا خلیفہ بن گیا۔ بغداد اور خراسان کسی بھی جگہ قیام کی صورت میں دوسری جگہ بغاوت کا امکان تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ خراسان کو مسکن قرار دے اور علویوں کے سربراہ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلائے اور خلافت کی پیشکش کرے۔
مورخین کے درمیان اختلاف ہے کہ مامون اپنی پیشکش میں مخلص تھے یا نہیں۔ اس نے کہا کہ خلافت قبول نہیں تو ولایت عہدی کو قبول کریں۔ طویل مذاکرات کے بعد امام نے ولایت عہدی کو اس شرط کے ساتھ قبول کرلیا کہ حکومتی معاملات میں امام کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔
امام حسین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین ان کی زبان تک محدود ہے جب مشکلات آتی ہیں تو دیندار کم ہی رہ جاتے ہیں۔ امام رضا علیہ السلام بھی جانتے تھے کہ لوگ اس وقت آپ کی تعریف کررہے ہیں لیکن آپ کی حکومت کو تحمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں حتی کہ مامون میں بھی یہ طاقت نہیں ہے۔
مامون نے امتحان لیتے ہوئے امام سے درخواست کی کہ نماز عید کی امامت کریں۔ امام نے شروع میں معذرت کی لیکن جب مامون نے اصرار کیا تو فرمایا کہ اس شرط پر قبول کرتا ہوں کہ رسول خدا کی طرح نماز پڑھاوں گا۔ مامون نے قبول کرلیا۔ اعلان کیا کہ شہر کے باہر نماز عید ادا کی جائے گی۔
سپاہیوں نے زمانے کے رسم کے مطابق وردیوں کے ساتھ نماز میں شرکت کی تیاری کی اور قیمتی لباس پہن لئے اور امام کی رہائش گاہ کے باہر انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد دیکھا کہ امام علیہ السلام پابرہنہ گھر سے نکلے ہیں۔ غلاموں کے آگے خضوع و خشوع کے ساتھ حرکت کررہے ہیں۔ امام اللہ اکبر پڑھتے تو لوگ جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے۔ جب امام کی یہ حالت دیکھی تو سپاہی بھی سواریوں سے اتر گئے اور پابرہنہ امام کے پیچھے چلنے لگے۔ راوی کہتا ہے کہ گویا زمین، آسمان، پہاڑ اور دریا سب ہم صدا ہوکر اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔ جب اس کیفیت کی خبر مامون تک پہنچی تو وزیر فضل نے کہا یا امیرالمومنین اگر اپنی خلافت بچانا چاہتے ہو تو امام رضا علیہ السلام کو واپس گھر بھیج دیں۔ اگر اس طرح نماز ادا کرے تو لوگ امام رضا کی طرف جذب ہوجائیں گے۔ مامون امام کے پیچھے دوڑا اور کہا اے میرے چچازاد! آپ خود کو زحمت میں کیوں ڈال رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کو زحمت ہوجائے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ واپس جائیں۔