حکومت پاکستان نے افغان تارکین وطن کو ملک سے ڈی پورٹ کے منصوبے کی منظوری
پاکستان کی وزارت داخلہ نے افغان تارکین وطن پر دہشت گردانہ سرگرمیوں، منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی زرمبادلہ کی سرگرمیوں اور بھارتی حکومت کو فائدہ پہنچانے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
شیئرینگ :
پاکستانی حکومت کے اعلان کے مطابق پہلے مرحلے میں سفری دستاویزات نہ رکھنے والے دس لاکھ افغان تارکین وطن کو ان کے ملک بھیج دیا جائے گا۔
حکومت پاکستان نے افغان تارکین وطن کو ملک سے ڈی پورٹ کرنے کے وزارت داخلہ کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔
اس فیصلے سے متعلق ذرائع سے معلومات حاصل کرنے والے نیوز چینل 18 نے بتایا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے افغان تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے عمل کے حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کیے گئے منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ پہلے مرحلے میں تقریباً 10 لاکھ افغان مہاجرین کو واپس اپنے ملک بھیج دیا جائے گا۔
پاکستان کی وزارت داخلہ نے افغان تارکین وطن پر دہشت گردانہ سرگرمیوں، منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی زرمبادلہ کی سرگرمیوں اور بھارتی حکومت کو فائدہ پہنچانے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
باخبر ذرائع نے نیوز 18 کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں غیر قانونی تارکین وطن سے نمٹا جائے گا اور اس ہدف کے تحت پہلے مرحلے میں 10 لاکھ افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے گا۔
ان باخبر ذرائع نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ افغان تارکین وطن کو پاکستان سے نکالے جانے سے اس ملک اور طالبان گروپ کے درمیان کشیدگی بڑھے گی اور سرحدی تنازعات کا بھی امکان ہے۔
دریں اثنا، اقوام متحدہ میں حکومت پاکستان کے نمائندے منیر اکرم نے منگل کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں بڑے پیمانے پر افغان تارکین وطن کو پاکستان سے نکالنے کا اعلان کرتے یوئے کہا: "پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ رجسٹرڈ تارکین وطن ہیں اور 20 لاکھ تارکین وطن اس ملک میں غیر قانونی طور پر موجود ہیں۔
حکومت پاکستان نے اس ملک سے 20 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ یہ لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔
اس سے قبل طالبان کی مہاجرین کی وزارت کے نائب "محمد ارسلان خروٹی" نے کہا تھا کہ اس گروپ کے عہدیداروں نے ترکیہ، ایران اور پاکستان کے اپنے دوروں کے دوران افغان شہریوں کی قانونی موجودگی اور ملازمتیں تلاش کرنے کے بارے میں بات چیت کی جو کہ مفید رہی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں ایران اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک سے 9 لاکھ 52 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس آئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے طالبان حکام پر سرحدی سیکیورٹی فراہم نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ہے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد گروپوں سے سنجیدگی سے نمٹیں۔
دو ہفتے قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بارے میں ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے اسلام آباد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان ہمسایہ ممالک میں عدم تحفظ نہیں چاہتا اور پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی سیکیورٹی صورتحال کو مضبوط کریں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد پاکستانی حکام نے ایک بار پھر اپنے ملک کی سیکیورٹی کو مضبوط کرنے کے بجائے الزام کی انگلی افغانوں پر اٹھائی ہے۔
امارت اسلامیہ افغانستان ان دعوؤں کو یکسر مسترد کرتی ہے اور پاکستانی حکام کو یاد دلاتی ہے کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو ابھی طویل جنگوں سے نکلا ہے اور کسی دوسرے ملک خصوصاً پڑوسی ممالک میں بدامنی نہیں چاہتا۔
افغانستان کی حکومت ایک بار پھر اپنے اصولی موقف پر زور دیتی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین سے دوسرے ممالک کی سلامتی کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دیتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خطے میں کسی بھی ملک کی سلامتی کی ناکامی کا ذمہ دار افغانستان ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ بیس سالوں میں ہمارا خطہ امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی قبضے اور خطے کے بعض ممالک کی غلط پالیسیوں کا شکار رہا ہے، جس کے اثرات اب بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے بد امنی کی صورت حال کو داخلی طور پر کنٹرول کرنے کے لئے راہ حل تلاش کرے۔