امام خمینی کا ہدف اختلافات کے باوجود پوری ملت اسلامیہ کو اکٹھا کرنا تھا
انہوں نے اپنی بات جاری رکھی: اسلامی مذاہب کے درمیان جو اختلافات دیکھے جاسکتے ہیں وہ زیادہ تر بعض مسائل میں معمولی فقہی اور نظریاتی اختلافات ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ اختلافات امت اسلامیہ کو اسلام کے حقیقی اور مستند تصور سے دور کرنے کا سبب نہیں بنتے۔
شیئرینگ :
تقریب خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق اسلامی ایکشن فرنٹ کے کوآرڈینیٹر "شیخ زہیر جعید" نے 37ویں اسلامی اتحاد کانفرنس کے ویبینار میں کہا: ہفتہ وحدت کے موقع پر جو کہ اسلامی ایکشن فرنٹ کے کوآرڈینیٹر تھے۔ جس کا نام امام خمینی (رح) نے رکھا ہے، اس نے اپنے اثرات اور نتائج دکھائے ہیں۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ہدف اختلافات کے باوجود پوری ملت اسلامیہ کو اکٹھا کرنا تھا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھی: اسلامی مذاہب کے درمیان جو اختلافات دیکھے جاسکتے ہیں وہ زیادہ تر بعض مسائل میں معمولی فقہی اور نظریاتی اختلافات ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ اختلافات امت اسلامیہ کو اسلام کے حقیقی اور مستند تصور سے دور کرنے کا سبب نہیں بنتے۔
شیخ زہیر نے کہا: خواہ ہم شیعہ ہوں یا سنی، ہم ایک ہی مقصد کی پیروی کرتے ہیں اور بہت سی مشترکات ہیں۔ دیگر چیزوں کے علاوہ ہمارا ایک قبلہ اور ایک کتاب ہے اور امت اسلامیہ میں ہم سب ظلم کے خلاف، صیہونی حکومت کے خلاف اور عالمی استکبار کے خلاف کھڑے ہیں۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: اتحاد اور خدا کی رسی کو تھامنا ایک الہی حکم ہے جس کا اظہار احادیث نبوی (ص) سے بھی ملتا ہے۔
شیخ زہیر جاوید نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں یاد دہانی کرائی: آج ہم مغرب کی طرف سے خدا کی کتاب اور پیارے پیغمبر اسلام (ص) کی توہین کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہم ایران کے صدر کے اقدام کو سراہتے ہیں جنہوں نے قرآن پاک کو اقوام متحدہ کے پوڈیم پر اٹھایا اور قرآن پاک کی حرمت پر زور دینے کے لیے ایسا کیا اور کہا کہ ہم اس کتاب کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں اور یہ سچ ہے۔
اسلامی ایکشن فرنٹ کے کوآرڈینیٹر نے کہا: آج ہم اس بات کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ عرب حکومتیں اور بدقسمتی سے بعض اسلامی حکومتیں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے، دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے کی طرف قدم اٹھا رہی ہیں۔ اس دوران صرف اسلامی جمہوریہ ایران ہی اپنے قائد، صدر، قوم، فوج، فوج اور تمام طبقات کے ساتھ مزاحمت کے محور کے ساتھ کھڑا ہے اور ہم اس محور میں شیعہ اور سنی دونوں کے کردار کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔