آپ نے جوانی میں ایک گروہ بنام ’’حزب الدعوۃ الاسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ اقدام اس زمانے کی ظرفیت اور تقاضوں اور خاص طور سے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ان دنوں موجود سیاسی سطح فکر کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کے عمیق سیاسی شعور کی غمازی کرتا ہے۔
شیئرینگ :
تحریر: نثار علی ترمذی
شہید صدر نے عالم اسلام کو جو آج مسئلہ درپیش ہے، اس کا حل پیش کیا۔ ان کے شاگردِ عزیز آیت اللہ کمال حیدری ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں: ’’اسلامی دنیا، عالم تشیع اور عالم بشریت کو درپیش چیلنج یعنی تفرقہ، ناانصافی اور اختلاف ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے علاوہ کسی دوسرے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ مثلاً جس شخص نے فلسفہ پڑھا ہے، وہ اس شخص کا مخالف ہے، جس نے فلسفہ نہیں پڑھا۔ اسی طرح بعض کے نزدیک جو فلاں فلاں شخص پر لعنت نہ کرے، وہ شیعہ نہیں ہے۔ اس کو اہلِ تبرہ نہیں سمجھتے۔ درحقیقت ہم خود اپنے ہاتھوں سے شیعہ معاشرے کو تقسیم کر رہے ہیں۔ شہید صدرؒ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اہل سنت کے بڑوں کی توہین ہو، حتیٰ کہ نام لیتے ہوئے بھی۔ مثال کے طور پر کہتے تھے کہ ’’ابوبکر‘‘ کا نام لیتے ہوئے احترام کا خیال رکھا جائے۔ حقیقت کا انکشاف ایک چیز ہے، لیکن بے احترامی ایک مختلف بات ہے۔ آپ نہ صرف باقی اہل تشیع اور مسلمین بلکہ غیر مسلموں کی بے احترامی بھی نہیں کرتے تھے۔
’’امیر المؤمنین ؑ فرماتے ہیں: "دوسرے انسان یا تو تمہارے بھائی ہیں یا تم جیسے انسان ہیں۔" شہید صدرؒ کا نقطہ نظر بھی یہی تھا۔ حوزہ سے تعلق رکھنے والے بعض ناخوانداہ افراد نے اس بارے میں کتابیں لکھیں کہ شہید صدرؒ نے لعنت کیوں نہ کی؟ یہ لوگ شہید صدر کو ایک ’’التقاطی‘‘ (دو مذہبوں کو جمع کرنے والا) سمجھتے تھے۔ شہید صدرؒ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے والے تھے اور یہ چیز ان کی سیرت اور کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ عالم اسلام کی حالیہ مشکلات اور اختلافات سے چھٹکارے کا راستہ یہی احترام اور ایک دوسرے کے مقدسات اور عقائد کی توہین سے پرہیز کرنا ہے۔‘‘ شہید باقر الصدرؒ نے درس و تدریس اور علمی جہاد کے علاوہ متعدد علمی اقدامات بھی کئے۔ ان میں چند اقدامات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
۱) آپ نے جوانی میں ایک گروہ بنام ’’حزب الدعوۃ الاسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ اقدام اس زمانے کی ظرفیت اور تقاضوں اور خاص طور سے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ان دنوں موجود سیاسی سطح فکر کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کے عمیق سیاسی شعور کی غمازی کرتا ہے۔
۲) جماعۃ العلماء کی تاسیس ایک اہم اسلامی قدم تھا۔ گو کہ آپ اس کا حصہ شمار نہ ہوتے ہوئے بھی اس پربرکت اقدام کی نسبت دلسوز اور مہربان تھے اور اس تحریک کی پشت پناہی اور راہنمائی میں بڑا کردار ادا کیا۔ بعد ازاں آیت العظمیٰ محسن الحکیم کی خواہش پر تمام حِزبوں سے جدائی اختیار کر لی تھی، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ جیسی بڑی شخصیت کو کسی ایک حزب سے وابستہ کیا جائے، بجائے اس کے تمام حِزبوں اور گروپوں کی سرپرستی و نگرانی کرنی چاہیئے۔
۳) مجلہ ’’الاضواء اسلامیہ‘‘ جو علماء اور نوجوانوں میں رابطے کا ترجمان تھا۔ اس میں شہید کا مقالہ ’’رسالتنا‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ جو بعد ازاں اسی نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔
شہید باقرالصدر نے فقہی لحاظ سے کچھ ایسے فتویٰ دیئے، جو کہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے کو قریب کرنے کے لیے تھے۔ جس سے باہمی محبت اور ایک دوسرے پر اعتماد بحال کرانا مقصود تھا۔ اس ضمن میں ان کا اپنے مقلدین کے لیے وہ فتویٰ قابل ذکر ہے، جس میں انھوں نے حکم دیا کہ ’’اگر امام جماعت اہل سنت میں سے ہو اور اس میں شرائط امامت یعنی عدالت و حسن قرآت وغیرہ موجود ہوں تو جماعت اس کی اقتداء کی جائے۔‘‘ (اقتباس تقریر حجۃ الاسلام شیخ فاضل سہلانی، رپورٹ، بین الاقوامی سیمینار بانیا وحدت اسلامی کر 1985ء ص 179) اب جبکہ اہل تشیع کے جید مجتہدین نے اہل سنت کے امام جماعت کی اقتداء میں نماز باجماعت کے فتاوے دے دیئے ہیں تو اس کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ جب مساجد میں اتحاد کے مناظر دن میں پانچ مرتبہ دیکھنے کو ملیں گے تو بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ اہل سنت اپنی مساجد کے دروازے اہل تشیع کے لیے وا کر دیں اور اہل تشیع اپنے مجتہدین کے فتاویٰ پر عمل کرنا شروع کر دیں تو یہ ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
مفکر اسلام علامہ سید باقر الصدر نے اپنی شہادت سے چند روز قبل عراقی عوام کے نام ایک پیغام میں فرمایا: ’’میں نے جب سے شعور سنبھالا ہے، اس امت میں جب سے میں نے اپنی تکلیف و ذمہ داری کا احساس کیا ہے، اس وقت سے میں نے اپنے وجود کو شیعہ و سنی دونوں کے لیے برابر خرچ کیا ہے، عربی و کردی کے لیے برابر کام کیا ہے۔ میں نے ایسا پیغام دیا ہے، جو ان کو متحد کر دے، ایسے عقیدہ کا دفاع کیا ہے، جو سب کے لیے ہے۔ میں اپنی ذات، اپنے وجود کے اعتبار سے فقط اور فقط اسلام کے لیے زندہ ہوں، جو سب کے لیے نجات کا راستہ اور سب کا ہدف ہے۔ میں آپ کے ساتھ اتنا ہوں، اے سنی بیٹے، سنی بھائی، جس قدر میں آپ کے ساتھ اے شیعہ بیٹے، اے شیعہ بھائی، میں اسی قدر آپ کے دونوں کے ساتھ ہوں، جس قدر آپ اسلام کے ساتھ ہیں۔ جس قدر آپ دونوں اسلام کی مشعل کو اٹھائے ہوئے ہو۔ عراق کو جبر، ظلم و استبداد، نکبت و ذلت کے تسلط سے بچانے کے لیے ہے۔ بے شک طاغوت، میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ یہ سنی و شیعہ کا مسئلہ ہے، تاکہ سنیوں کو مشترکہ دشمن کے خلاف ان کی حقیقی جنگ اور معرکہ سے علیحدہ رکھیں۔
میں یہ بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں، اے علی و حسین کے فرزندو! اے ابوبکر و عمر کے بیٹوٖٖ! یہ جنگ شیعہ و سنی کے درمیان نہیں۔ سنی حکومت وہ ہے، جس کا نمونہ خلفاء راشدین نے پیش کیا، جو اسلام و عدالت کی اساس پر قائم تھی، جس کے دفاع کے لیے علیؑ نے تلوار اٹھائی۔۔۔ ہم سب اسلام کے لیے جنگ کرتے ہیں۔ اسلام کا پرچم اس مذہبی رنگ جو بھی ہو، ایسی سنی حکومت جو اسلام کی پرچم بردار ہے، اس کی حفاظت کے لیے شیعہ علماء نے فتویٰ جاری کیا۔ آج جو حکومت عراق میں ہے، وہ سنی حکومت نہیں ہے، اگرچہ وہ گروہ جو حکومت پر قابض ہے، وہ سنی خاندان کی طرف منسوب ہے۔ سنی حکومت سے یہ مراد نہیں کہ ایسے شخص کی حکومت سے مراد ابو بکرؓ و عمرؓ کی حکومت ہے۔ عراق میں طاغوت حکمران اس کے خلاف ہیں۔
اسلام کے مقدمات کو پامال کیا جاتا ہے۔ عمرؓ و علیؑ دونوں کی روزانہ ہتک ہوتی ہے۔ ہر اقدام و پروگرام میں، ہر مجرمانہ قدم پر اسلام، علیؑ، عمرؓ کی بے حرمتی، توہین اور ہتک کی جاتی ہے۔ میرے فرزندو، میرے بھائیو! کیا ہم نہیں دیکھتے کہ دینی شعائر جن کا حضرت علیؑ و حضرت عمرؓ دنوں نے دفاع کیا۔ انھوں نے ان کو ختم کر دیا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ انھوں نے پورے ملک کو شراب، خنزیروں کے غول، فساد و گناہ کے تمام وسائل سے بھر دیا ہے۔ میں آپ سب سے یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آپ سب کے لیے ہوں۔ آپ کی خاطر اور آپ کو فائدہ پہنچانے کی خاطر ہوں۔ آپ سب اب اور مستقبل میں میرا ہدف و مقصد ہیں۔ پس آپ سب کا پروگرام ایک ہونا چاہیئے۔ اسلام کے پرچم تلے، آپ سب اپنی صفوں کو سیدھا کرلیں۔۔۔ ایک آزاد، محترم، باوقار عراق کی تعمیر کے لیے جس میں اسلامی عدالت ہو، انسان کی کرامت و سرداری ہو، جس میں تمام شہری مختلف قومیتوں، مختلف مذہبوں، مختلف قبیلوں، مختلف رنگوں میں ہونے کے باوجود خود کو بھائی بھائی سمجھیں۔ سب مل کر اس ملک کی قیادت کریں۔ سب مل کر اپنے وطن کی تعمیر کریں۔ سب مل کر اسلام کے زریں اور حیات بخش قوانین کو وجود بخشیں۔ (رپورٹ ’’بین الاقوامی سیمنیار، بانیان وحدت اسلامی، 29,28,27 نومبر1985ء کراچی زیراہتمام خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران، کراچی، ص 425-426)