حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو 22 سال کی عمر میں اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کا عہدہ ملا اور آپ نے عالم اسلام کی ہدایت اور رہنمائی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔ اس دور میں مسلمان معاشرے میں فتنے اور انحرافی افکار کا زور و شور تھا۔
شیئرینگ :
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اسلامی اقدار اور تعلیمات کی حفاظت کے لئے شیعوں سے مکمل رابطے میں رہتے تھے اور ہر جگہ امام کے نمائندے تعیینات تھے جو امام کو خط کے ذریعے حالات سے آگاہ کرتے تھے۔
آٹھ ربیع الاول کو گیارہویں امام حضرت امام حسن العسکری علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 232 ہجری قمری میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت حدیثہ خاتون تھیں۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو 22 سال کی عمر میں اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کا عہدہ ملا اور آپ نے عالم اسلام کی ہدایت اور رہنمائی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔ اس دور میں مسلمان معاشرے میں فتنے اور انحرافی افکار کا زور و شور تھا۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیرت کے کئی پہلو ہیں جن میں ایک اسلامی اقدار اور تعلیمات کی حفاظت ہے۔ ائمہ اہل بیت نے اس حوالے سے پوری زندگی کوشش کی اور رنج و غم اٹھائے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے انحرافی افکار اور گمراہ عقائد کے خلاف قیام کیا۔ ائمہ کرام شیعہ علماء کو بھی اسلام کے صحیح عقائد کی ترویج اور حفاظت کی تلقین کرتے تھے چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:عُلماءُ شیعَتِنا مُرابِطُونَ فِی الثَّغْرِ الّذی یَلِی اِبْلیسُ وَ عَفارِیتُهُ یَمْنَعُونَهُمْ عَنِ الْخُروُجِ عَلی ضُعَفاء شِیعَتِنا،وَ عَنْ اَنْ یَتَسَلَّطَ عَلَیهِمْ اِبْلیسُ وَ شِیعَتُهُ النَّواصِبُ، اَلا فَمَنْ اِنْتَصَبَ کانَ اَفْضَلُ مِمَّنْ جاهَدَ الرُّومَ والتُّرْکَ والْخَزَرَ اَلْفَ اَلْفَ مَرَّةٍ لاَنَّهُ یَدْفَعُ عَنْ ادیانِ مُحِبّینا وَ ذلِکَ یَدْفَعُ عَنْ ابْدانِهِمْ۔ ہمارے شیعہ علماء ابلیس اور اس کے لشکر کے سامنے سینہ سپر ہوکر عقیدتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اور نہتے شیعوں کا دفاع کرنے والے ہیں۔ وہ ابلیس اور اس کے ناصبی پیروکاروں کو شیعوں پر تسلط حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔ آگاہ رہیں کہ یہ فریضہ ادا کرنے والے شیعہ روم، ترکی اور خزر کی سرحدوں پر دشمنوں سے مقابلہ کرنے والے ہزاروں سپاہیوں سے زیادہ افضل ہیں کیونکہ شیعہ علماء اسلامی اقدار اور عقائد کا دفاع کرتے ہیں جبکہ مجاہدین جغرافیائی سرحدوں کی محافظت کرتے ہیں۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے والد ماجد کے دور میں اسی طرح اپنی امامت کے دوران طاغوت کا مقابلہ کرنے کے علاوہ ان گمراہ فرقوں کے خلاف بھی قیام کیا جو اسلام کے نام پر معاشرے میں گمراہی پھیلاتے تھے۔ امام عالی مقام نے ہمیشہ شیعوں کو ان گمراہ فرقوں کے بارے میں متنبہ کیا۔ آپؑ نے ان فرقوں کے خلاف قیام کیا اور ان کے غلط عقائد کو لوگوں پر واضح کرکے عوام کے دین کو محفوظ کیا کیونکہ یہ فرقے اسلامی تعلیمات کی ترویج اور تبلیغ میں بڑی رکاوٹ تھے اور دشمن کے لئے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا بڑا ذریعہ تھے۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی چھے سالہ امامت کے دوران بنی عباس کے تین ظالم حکمرانوں کا سامنا کیا جن میں معتز عباسی، مہتدی اور معتمد شامل تھے۔ اس مختصر مدت کے دوران اسلام اور تشیع کے دفاع اور حفاظت کی وجہ خلفاء بنی عباس آپ کی جان کے درپے رہتے تھے۔
انہوں نے امام عالی مقام اور ان کے چاہنے والوں کو زیادہ سے زیادہ زندانوں اور حراست میں رکھنے کی کوشش کی جہاں امام علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کی سخت اذیتیں دی جاتی تھیں۔
بنی عباس کے خلفاء حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی طرح حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو بھی ایک سے دوسرے زندان میں منتقل کرتے تھے۔ معتز عباسی نے ذاتی طور پر زندان بان کو حکم دیا تھا کہ امام عالی مقام کو کوفہ کی طرف لے جائے اور راستے میں سر تن سے جدا کرے۔
بنی عباس کے خلفاء اور گمراہ فرقوں کے خلاف فعالیت اور قیام کی وجہ سے دشمن آپ کی جان کے درپے ہوگئے۔ امام عالی مقام مختلف شہروں اور دیہاتوں میں تعیینات اپنے وکیلوں اور شیعہ علماء سے رابطے میں رہتے تھے جو خطوط کے ذریعے اپنے علاقے کے حالات سے امامؑ کو آگاہ کرتے تھے۔ امام عالی مقام کا رابطہ خفیہ ہوا کرتا تھا تاکہ دشمن خطوط اور پیغامات کے متن سے باخبر نہ ہوجائیں۔
دوست اور دشمن جانتے تھے کہ امام مہدیؑ ظالم اور جابر حکمرانوں کا خاتمہ کریں گے۔ امام مہدی علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام کے صلب سے دنیا میں آئیں گے۔ اسی لئے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے بھی خوفزدہ رہتے تھے۔ اسی خوف کی وجہ سے امام حسن عسکری علیہ السلام کو زندان میں ڈالا اور بالاخر شہید کردیا۔