امت اسلامیہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو نظر انداز کر کے متحد ہو جائے
مولوی اسحاق مدنی نے بیان کیا: اسلام میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا گیا، اس لیے وہ نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کو جائز سمجھتے تھے۔
شیئرینگ :
تقریب نیوز ایجنسی کے شعبہ فکر کے نامہ نگار کے مطابق مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کی سپریم کونسل کے سربراہ "مولوی محمد اسحاق مدنی" نے 38ویں اسلامی اتحاد کانفرنس کے دوسرے ویبنار میں یہ بات کہی۔ : "ماضی کے مذاہب میں ان کے انبیاء کی وفات کے بعد اختلاف ہوا کرتا تھا اور عموماً جب کوئی عظیم پیغمبر آتا تھا تو وہ اس پیغمبر کے لائے ہوئے پیغام کے بارے میں اختلاف کیا کرتے تھے، لیکن ماضی کے مذاہب اور علمائے کرام کے درمیان اختلاف تھا۔
انہوں نے مزید کہا: ماضی میں مذاہب کے درمیان اختلافات عموماً ان کے مذہب کے اصولوں میں تھے۔ مثال کے طور پر، عیسائیت کی خود مسیح کے بارے میں مختلف آراء تھیں، بعض نے انہیں خدا، بعض نے انہیں خدا کا حصہ اور بعض نے انہیں خدا کا نبی مانا۔ لیکن اسلام میں خوش قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان فرق مذہب کے اصولوں میں نہیں بلکہ اس کی شاخوں میں ہے۔
مولوی اسحاق مدنی نے بیان کیا: اسلام میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا گیا، اس لیے وہ نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کو جائز سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں تھے، اگر مسلمانوں میں کسی مسئلہ میں جھگڑا ہوتا تو وہ ان پر الزام نہیں لگاتے اور فتویٰ دیتے اور دونوں گروہوں کے کاموں کی اجازت دیتے۔
انہوں نے کہا: اسلام میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ عموماً ان امور کے بارے میں ہیں جن کے بارے میں کوئی واضح متن موجود نہیں ہے یا اگر ہے تو کسی اسلامی مکتب یا مجتہد کو اس کی روایت میں شک ہے۔ البتہ اگر متن صریح ہو تو متن کے مطابق مجتہد کا اجتہاد جائز نہیں ہے اور اس متن کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔
مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کی سپریم کونسل کے چیئرمین نے کہا: اس لیے اسلام میں اختلافات زیادہ مسئلہ نہیں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے دشمنان اسلام ان مسائل کو ہمارے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہم تنازعات میں پڑ جاتے ہیں اور اہم مسائل کے لیے اتحاد سے دستبردار ہو جاتے ہیں، خاص طور پر فلسطینی عوام کے بارے میں جو تنہا رہ گئے ہیں اور ایران کے علاوہ کسی حکومت کی حمایت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اس لیے امت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان چھوٹے مسائل کو نظر انداز کرے اور اس اہم مسئلے پر توجہ مرکوز کرے، ہم امید کرتے ہیں کہ جیسا کہ اسلامی علماء فلسطین کی مدد کو جہاد اور فرض سمجھتے ہیں، امت اسلامیہ بیدار ہو کر اس الہی فریضے کو پورا کرے گی۔