تاریخ شائع کریں2021 4 April گھنٹہ 14:20
خبر کا کوڈ : 498631

پاکستان، روس اور چین کیسے مل کر مغربی ایشیا کو مستحکم کر سکتے ہیں؟

پاکستان اور روس توازنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس کا مقصد روابط پر مشتمل معاشی سفارتکاریکو مضبوط بنانا ہے۔ اسلام آباد میں مارچ میں افتتاحی سیکورٹی ڈائیلاگ میں پاکستان کی کثیر قطبی حکمت عملی اور روس کی عظیم تر یوریشین پارٹنرشپ اس کا واضح ثبوت ہے۔
پاکستان، روس اور چین کیسے مل کر مغربی ایشیا کو مستحکم کر سکتے ہیں؟
بشکریہ: شفقنا اردو

ماسکو میں قائم روسی بین الاقوامی امور کونسل (RIAC) نے پیر کے روز پاکستان تعاون سے متعلق اسٹریٹجک وژن انسٹی ٹیوٹ (SVI) کے ساتھ مل کر ایک ویبی نارکی مشترکہ میزبانی کی۔اس تقریب میں کہا گیا کہ  اسلام آباد اور ماسکو نے آہستہ آہستہ اسٹریٹجک اعتماد تشکیل دے دیا ہے اور دونوں ممالک نے باہمی ربط اور تعاون کو آگے بڑھانے کے لئے ادارہ جاتی میکانزم وضع کرلیا ہے۔ اس تقریب میں بہت ساری اہم شخصیات موجود تھیں۔ روس میں پاکستان کے موجودہ سفیر شفقت علی خان، روس میں پاکستان کے سابقہ سفیر قاءضی خلیل اللہ اور دو مزید سابق سفیر طارق اوسامہ حیدر اورعارف کمال بھی مہمانوں کی فہرست میں شامل تھے۔ اس موقع پر شفقت علی خان نے بتایا کہ کس طرح دونوں ممالک آہستہ آہستہ سٹریٹجک اعتماد میں اضافہ کر رہے ہیں جبکہ سابق سفیر حیدر نے بدھ کے روز ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان پاک روس تعلقات اور مستقل کا رستہ جس میں انہوں نے اس ویبی نار کے دوران ہونے والی اہم گفتگو کا ذکر بھی کیا۔

تاہم یہ سابق سفیر کمال کی تجویز تھی جس نے موجودہ تجزیے کو بنیاد فراہم کی۔ انہوں نے یہ تجویز دی کہ پاکستان کو مغربی ایشیا میں روس اور چین کے ساتھ مل کر مشترکہ سفارتی سرگرمیاں شروع کرنی چاہیئیں تاکہ وہ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کی ٹھوس کوششیں کر کے خلیج استحکام کی طرف واپس لا سکے۔ یہ منصوبہ درحقیقت روسی بین الاقوامی امور کونسل اور اسٹریٹجک  وژن انسٹی ٹیوٹ کی مارچ 2020 مئں شائع ہونے ایک رپورٹ میں پیش کیا گیا جس کا عنوان” مشرق وسطی میں روس اور پاکستان سیکورٹی نقطہ نظر سے۔ اس منصوبے کے پیچھے چین کا ایران کے ساتھ 25 سالہ حالیہ سٹریٹیجک معاہدہ بھی ہے جس کے تحت چین ایران میں 400 ارب ڈالر کی ایک وسیع سرمایہ کاری کرے گا۔

اس پرپوزل سے سابق سفیر کمال کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے.انہوں نے حال ہی میں اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب “Reminiscences of My Wanderings” کے نام سے شائع کی ہے۔ 2003 سے 2007 تک وہ اردن میں پاکستان کے سفیر رہے، 1999 سے 2003 تک وہ قطر میں پاکستانی سفیر کے عہدے پر فائز رہے جبکہ اس سے قبل قہ 1995 سے 1998 تک جدہ میں کونسل جنرل تعینات رہے، 1979 سے 1981 تک وہ دفتر خارجہ میں ڈیسک آفیسر ایران رہے اور 1974 سے 1978 کے درمیان کویت میں بطور سفیر اپنی پہلی ذمہ داری سرانجام دی۔ اس لیے انہیں بین الاقوامی اور خطی امور پر پاکستان کا سب سے زیادہ قابل اور باعلم ماہر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ  کے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ادارہ برائے سٹریٹجک سٹڈیز، ریسرچ ایند اینالسز (اسرا) کے 2007 سے 2017 تک سربراہ بھی رہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان کا سہ ملکی پرپوزل بہت اہمیتکا حامل ہے۔

پاکستان اور روس توازنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس کا مقصد روابط پر مشتمل معاشی سفارتکاریکو مضبوط بنانا ہے۔ اسلام آباد میں مارچ میں افتتاحی سیکورٹی ڈائیلاگ میں پاکستان کی کثیر قطبی حکمت عملی اور روس کی عظیم تر یوریشین پارٹنرشپ اس کا واضح ثبوت ہے۔ دونوں ممالک خلیج کے تمام مالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں جن کی وجہ سے وہ متعلقہ فریقین کے مابین ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جہاں تک چین کی بات ہے تو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ تمام شراکت داروں کےمابین متوازن تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سابق سفارت کار عارف کمال نے اس بات کا خوبصورتی سے ادراک کیا ہے کہ پاک چین روابط اس عمل کو مزید ساکھ فراہم کریں گے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ چین ایک متاثر کن معاشی اثرو رسوخ رکھتا ہے ، خاص طور پر خلیجی ممالک پر اور چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کے حالیہ دورے کو اس تناظر میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ اور اب ایران کے ساتھ پچیس سالہ سٹریٹیجک پارٹنرشپ یقینا تمام سٹیک ہولڈرز کو اس بات پر مجبور کرے گی کہ وہ اپنے تنازعات کو حل کریں۔  اگر اس کو دوسری طرح سے دیکھا جائے تو پاکستان  خلیجی ممالک کا روایتی سفارتی دوست ہے ، جبکہ روس نیا اور غیر روایتی حلیف ہے جبکہ چین دنیا میں معاشی تبدیلی لانے والی قوت ہے  اس لیے یہ تینوں ملک مل کر اپنی مرضی کی تبدیلیاں لاسکتے ہیں ۔ یقینا ابھی یہ بہت اوائل میں ہے کہ مستقبل میں یہ پارٹنرشپ کیا رخ اختیار کرتی ہے  تاہم سابق سفیر عارف کمال کے پرپوزل پر بات چیت کرنا ایک پرامید عمل ہے ۔

اس حوالے سے پہلا قدم یہ ہےکہ پاکستان، روس اور چین اس منصوبے پر پہلے خود بات کر لیں کہ اس ضمن میں ان کے مشترکہ مفادات کیا ہیں اور ان مفادات کو حقیقی معنوں میں کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا قدم خطی ممالک کے مفادات ہیں کہ کیا وہ مفادات اس سہ ملکی سفارت کاری سے میل کھاتے ہیں یا نہیں اگر  ان تین ممالک کے پروپوزل میں کوئی تبدیلی لانی ہے تو وہ خلیجی ممالک سے مل کر اور ان کے مشورے سے اس کو ایک قابل عمل شکل دے سکتےہیں ۔ اور پھر تیسرا قدم یہ ہے کہ اس پالیسی کو عوام کے سامنے لایا جائے گا اور یہ بات ذہن میں رکھی جائے گی کہ اس عمل میں شریک فریقین اس پروپوزل کو منظور کر لیں گے ۔ اگرچہ یہ ٹائم لائن خوش فہمی پر مبنی ہے تاہم اس سال کے اختتام تک اس کو قابل عمل بنایا جاسکتا ہے۔ رواں ہفتے ہونے والا یہ ویبی نار بلاشہ روس اور پاکستان کے مابین ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، خاص طور پر  اس میں شریک  اہم سیاسی شرکا کی موجودگی نے اس کو اور بھی اہم بنادیا ہے۔ اگرچہ عارف کمال کی سہ ملکی ممالک کے مابین تعاون کی سفارت کاری کو زیادہ میڈیا کوریج نہیں مل سکی  تاہم اس تجویز کو انتہائی اہم اور قابل غور قرار دیا جاسکتا ہے۔
https://taghribnews.com/vdcaeany649noi1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ