تاریخ شائع کریں2021 7 April گھنٹہ 22:49
خبر کا کوڈ : 499129

گریٹر یوریشین پارٹنرشپ کا حقیقی مقصد

گریٹر یوریشین پارٹنرشپ  میں روس کا کردار سب سے زیادہ اور سب سے اہم ہے جب کہ دیگر ممالک کا کردار روس کے تابع ہوگا۔ گریٹر یوریشین پارٹنرشپ  منصوبے نے حال ہی میں زبردست سفارتی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔
گریٹر یوریشین پارٹنرشپ کا حقیقی مقصد

بشکریہ:شفقنا اردو
 
روسی وزیر خارجہ سرگئی لارو اور افغانستان میں روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلو اس ہفتے پاکستان اور بھارت کا ورہ کر رہے ہیں۔ یہ دورہ بہت اہم ہے کیونکہ اس کا مقصد صرف افغانستان امن عمل تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مقصد اس سال کے کسی بھی حصے میں روسی صدر کے دورہ بھارت کی تیاری کرنا بھی ہے۔اگرچہ یہ دونوں موضوعات انتہائی اہم ہیں ، مگر روس کا اصل مقصد گریٹر یوریشین پارٹنرشپ کے وژن کو مزید آگے بڑھانا ہے اور جنوبی ایشیا چونکہ دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے اس لیے یہ اس منصوبے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے بغیر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جنوبی ایشیا آبادی کے ساتھ ساتھ اکیسیویں صدی میں مضبوط معاشی ترقی میں حصہ دار بنتا بھی دکھائی دے رہا ہے۔

گریٹر یوریشین پارٹنرشپ کا حقیقی مقصد پرامن طریقوں سے معاشی ہم آہنگی کو بڑھاوا دینا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی منصوبہ ہے جس طرح کا منصوبہ چین بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعہ مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اگرچہ دونوں میں ایک بنیاد فرق ہے۔ گریٹر یوریشین پارٹنرشپ  میں روس کا کردار سب سے زیادہ اور سب سے اہم ہے جب کہ دیگر ممالک کا کردار روس کے تابع ہوگا۔ گریٹر یوریشین پارٹنرشپ  منصوبے نے حال ہی میں زبردست سفارتی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے جیسا کہ بہت سارے مخالف ممالک میں توازن کا قیام مثلا آرمینیا اور آزربائیجان، چین اور انڈیا، ایران اور سعودی عرب اور شام اور ترکی کے علادہ بعض دیگر ممالک۔ جنوبی ایشیا میں اس منصوبے نے روس اور بھارت کی سٹریٹیجک پارٹنرشپ کو ازسر نو تازہ کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بھی مفاہمتی عمل کو تیز کیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یوریشین یونین کا قیام روس کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہو گا اور یوریشین خطے کے باقی ممالک بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اقتصادی اتحاد کے قیام سے ایک طرف تو خطے میں روس کی معاشی سرگرمیوں میں خاطرخواہ تیزی آئے گی اور دوسری طرف خطے کے ممالک کا ایکدوسرے کے بارے میں موقف بھی بہتر ہو جائے گا۔اس کے علاوہ بڑی سطح پر اقتصادی سرگرمیوں کے میدان میں معین شدہ اہداف میں یوریشین خطے میں ایسے مضبوط صنعتی، تجارتی اور ٹرانسپورٹیشن مراکز کا قیام بھی شامل ہے جن کے ذریعے جدید ٹیکنولوجی سے مربوط پروڈکٹس کو بیرونی مارکیٹس تک ارسال کرنا ممکن بنایا جا سکے گا۔لہذا یوریشین اقتصادی یونین اپنے رکن ممالک کو بین الاقوامی منڈیوں میں رقابت بڑھانے کا موقع فراہم کرے گا جس کے نتیجے میں ان ممالک میں اقتصادی رونق پیدا ہو گی۔ روس کی توازن کی پالیسی کے کچھ ثبوت لداخ سیز فائر اور پاک بھارت بارڈر سیز فائر کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس بات کی توقع کر کے کہ روس یوریشین اقتصادی یونین میں جنوبی ایشیا کو لامحالہ شریک کرے گا ، یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ روس اس سے قبل پاکستان اور بھارت کو بھی ایک صفحے پر لانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ پس اس بات کو دیکھا جائے تو روسی وزیر خارجہ افغان امن عمل کے علاوہ کئی دیگر ٹھوس موضوعات پر بھی بات کریں گے۔ بھارت میں دورے کے دوران روسی وزیرخارجہ اپنے بھارتی ہم۔منصب کو اپنے دورہ چین کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے اورچین کے ساتھ کشیدگیکے خاتمے پراس کی تعریف کریں گے۔ اس ساری بات چیت کا مقصد روس، چین اور بھارت کے مشترکہ فریم ورک کا از سر نو احیا ہے۔ جبکہ سرگئی لارو امریکی پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود روسی  ساختہ دفاعی نظام ایس 400 خریدنے پر بھی مجبور کریں گے۔ آخر میں دونوں ممالک ولادی وسٹوک چنائے میری ٹائم راہداری پر بھی بات چیت کریں گے۔

جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو آخری مرتبہ روسی وزیر خارجہ نے 2012ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، جب کہ اسی سال صدر پوٹن نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا تھا۔ تب اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے روس کا دورہ کیا تھا۔ لاروف ایک تو پاکستان کی کثیر قطبی گرینڈ حکمت عملی کے بارے میں جاننا چاہیں گے اور دیکھیں گے کہ یہ حکمت عملی کس طرح روس کی یوریشین اقتصادی یونین سے منطبق ہوسکتی ہے۔ مزید برآں وہ اس بات میں بھی دلچسپی لیں گے کہ آیا ، پاکستان اور افغانستان کے  مابین کارگو ریلوے معاہدہ سنٹرل یوریشین راہداری کو آکٹیک اور بحیرہ ہند  سے ملانے کے لیے ایک جامع بنیاد فراہم کر سکتا ہے یا نہیں؟

اگر اس محاذ پر بات چیت آگے بڑھتی ہےتو پھر یہ بات اہمیت کی حامل ہوگی کہ کیا روسی صدر اس سال  بھارے کے ساتھ ساتھپاکستان کا دورہ کرتے ہیں اور کسی معاہدے پر دستخط کرنے کے ساتھ پاکستان گیس پائپ لائن پر کوئی پیش رفت کرتے ہیں یا نہیں۔ اس طرح روس اپنے توازنی عمل کو ایک مکمل شکل دے سکتا ہے۔

اس تمام متوقع  منظر نامے میں تبدیلیاں ممکن ہیں مگر اس کو مکمل طور پررد نہیں کیا۔ جاسکتا۔ کیونکہ اس کی بڑی وجہ روس اور پاکستان کے مابین قریبی خارجہ پالیسی ہےجس کی وجہ سے روس افغان امن عمل کو آگے بڑھا پا رہا ہے۔ اور پاکستان کی وجہ سے ہی روس اور طالبان قریب ہوئے ہیں حالانکہ روس نے طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دیا ہوا ہے۔ پاکستان کی وجہ سے ہی روس یوریشین ریجن میں بطور قدرتی امن کار کا درجہ برقرار رکھے ہوئے ہے اور اسی کی بدولت روس اپنی توازن کی پالیسی کو آگے بڑھا رہا ہے۔  پاکستان کےبغیر روس کے لیے یہ ہرگز ممکن نہیں تھا پس روس پاکستان کے کردار کوکسی طور بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔

ماضی کے برعکس اس مرتبہ روسی صدر کے پاس دورہ پاکستان کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ اس موسم گرما میں طے شدہ نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن پروجیکٹ (این ایس جی پی پی) کا آغاز روسی صدر کے پاس ایک مکمل موقع ہے کہ وہ جنوب ایشیائی ممالک کا دورہ  کریں۔ کئی ملین ڈالر کا یہ معاہدہ جس کا محور توانائی ہے ، روس ایک طویل عرصے بعد ایسا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ پاکستانی معیشت میں روسی سرمایہ کاری بہت جلد متوقع ہے۔ کسی وجہ سے اگر روسی صدر بھارت کے دورے کے بعد پاکستان دورے پر نہیں بھی آسکتے تب بھی  روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہےکیونکہ اس دورے سے لگتاہے روس جنوبی ایشیا کو اپنےیوریشین اقتصادی یونین منصوبے کا حصہ بنانے کے لیے کس قدر خواہش مند ہے۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ روس ایک طویل عرصے کے بعد جنوبی ایشیا کی طرف لوٹ آیا ہے تاہم اس مرتبہ وہ تعمیری مقاصد کے ساتھ لوٹا ہے۔ اس مرتبہ روس کا مطمع نظر صرف پر امن یوریشیا ہے۔
https://taghribnews.com/vdcdxn0onyt0nf6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ