تاریخ شائع کریں2016 26 March گھنٹہ 16:15
خبر کا کوڈ : 225858

پاک ایران تعلقات

محمد حسین بنی اسدی۔
پاک ایران تعلقات


خانہ فرہنگ ایران کی لاہور شہر میں تسلسل سے جاری ثقافتی، علمی و ادبی سرگرمیوں کے سبب ایرانی قونصل خانے کے میڈیا کے لوگوں سے رابطے کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ محمد حسین بنی اسدی لاہور میں ایران کے قونصل جنرل ہیں۔ پاک ایران تعلقات کے فروغ میں ان کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد حسین بنی اسدی کیساتھ خطے میں امن کی ضرورت، پاک چائنہ اقتصادی راہداری، ایران سعودیہ ناخوشگوار تعلقات، ایران کے ساتھ بھارتی تجارت کا فروغ، پاک ایران تجارت میں بہتری کی گنجائش، پاک ایران فلمی تعاون اور پابندیوں کے خاتمہ کے بعد ایران کی اقتصادی ترقی کی رفتار جیسے موضوعات پر گفتگو کی، 

سوال: پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے فروغ اور امکانات کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
محمد حسین بنی اسدی: بھارتیوں کی طرح پاکستان کے تاجروں کے پاس بھی بھرپور مواقع ہیں کہ وہ ہاہمی تجارت سے فائدہ حاصل کریں، لیکن پاکستانی تاجر اس طرف راغب نہیں ہوتے۔ موجودہ دور میں کسی بھی باشعور معاشرے کیلئے امن کی ضرورت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ پاکستان میں رونما ہونیوالے دہشتگردی کے واقعات پر ایران نے ہمیشہ تشویش کا اظہار کیا۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے یہاں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اہم اقدامات کئے گئے ہیں۔ اگر کسی ایک علاقے یا ملک میں تسلسل سے دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے رہیں اور دہشتگرد پنپتے رہیں تو اردگرد کے علاقوں اور ملکوں میں ان کے پھیلاؤ کا امکان اور خطرہ موجود رہتا ہے، کسی بھی جگہ دہشتگردی کے خاتمے سے صرف اس ملک میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں موجود ممالک میں قیام امن کی راہ ہموار ہوتی ہے، پائیدار امن کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ کوئی بھی ملک دہشتگردوں کو اپنی زمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ اس کے علاوہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے دہشتگردوں کو مالی وسائل فراہم کرنیوالوں کی سرکوبی بھی ضروری ہے۔ اس اقدام کے بغیر القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے قیام کو روکا نہیں جاسکے گا۔

سوال: چین پاکستان میں بہت سے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد حسین بنی اسدی: پاکستانیوں کی طرح میرا بھی خیال ہے کہ اس شاہراہ کی تعمیر سے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں معاشی ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔ ایران نہ صرف پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا خیر مقدم کرتا ہے بلکہ پیشکش کرتا ہے کہ اس کی تعمیر کیلئے جہاں بھی اس کا تعاون درکار ہو، وہ طلب کرنے پر فراہم کرنے کیلئے تیار ہوگا۔

سوال: ایران سعودی عرب میں کشیدگی سے امت مسلمہ پر براہ راست اثر پڑتا ہے، کیا کہیں گے۔؟
محمد حسین بنی اسدی: ایران اور سعودی عرب کے تعلقات خوشگوار نہیں۔ تعلقات میں بہتری کیلئے ہم نے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین مذاکرات کیلئے کئی مرتبہ باقاعدہ سعودی وزیر خارجہ کو ایران کے دورے کی دعوت دی، مگر ابھی تک اس سلسلے میں سعودی عرب کی طرف سے مثبت جواب نہیں مل سکا۔ اختلاف دور کرنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں، جب تک اس کیلئے ہم ایک میز پر نہیں بیٹھیں گے، اس سلسلے میں پیش رفت ممکن نہیں ہوسکے گی۔

سوال: کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ایران پاکستان کیساتھ تجارت کی نسبت بھارت کو ترجیح دیتا ہے، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
محمد حسین بنی اسدی: ایران اور بھارت کے درمیان سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تجارتی عمل جاری ہے، بھارت کے لوگ باہمی تجارت اور لین دین میں بہت ماہر اور اچھے کاروباری ثابت ہوئے ہیں، ایران نے چاہ بہار کو فری ٹریڈ علاقے کی حیثیت دیتے ہوئے پوری دنیا کی تاجر برادری کو سرمایہ کاری کی دعوت دے رکھی ہے، بھارت کے کاروباری لوگ ہماری اس پیشکش سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے، یہاں ضمناً بتایا جا رہا ہے کہ ایران اور بھارت نے چاہ بہار بندر گارہ کے توسیعی منصوبہ پر عمل کیلئے ایک طویل المیعاد معاہدہ کر رکھا ہے، اس منصوبہ کی تکمیل سے چاہ بہار بندرگاہ پر تجارتی سامان کی درآمد و برآمد کی گنجائش 2.5 ملین ٹن سے بڑھ کر 12.5 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی۔ اسی طرح اس بندرگاہ کی توسیع کے بعد یہاں ایک لاکھ ٹن وزن تک کے بحری جہاز لنگر انداز ہوسکیں گے۔ اس بندرگاہ کو بین الاقوامی شمالاً جنوباً اقتصادی راہداری بھی کہا جا رہا ہے، گو کہ اس بندرگاہ کے توسیعی منصوبے اور اس سے متصل شاہراہوں کی تعمیر کو پاک چائنہ راہداری کی طرح اہم سمجھا جا رہا ہے، مگر اپنی اقتصادی ترقی کیلئے ایران صرف اس منصوبے پر ہی قناعت کئے نہیں بیٹھا۔ چاہ بہار بندرگاہ کے توسیعی منصوبے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بھارت اس بحری مقام کو ترجیحی بنیادوں پر افغانستان کیساتھ اپنی تجارتی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرسکے گا۔

سوال: لیکن پاکستان ایک مسلمان ملک ہے، کیا ایران کو پاکستان کیساتھ تجارت کو فروغ نہیں دینا چاہیے۔؟
محمد حسین بنی اسدی: بھارتیوں کی طرح پاکستان کے تاجروں کے پاس بھی بھرپور مواقع ہیں کہ وہ ہاہمی تجارت سے فائدہ حاصل کریں، لیکن پاکستانی تاجر اس طرف راغب نہیں ہوتے۔ اس میں قصور ایران کا نہیں، بلکہ پاکستانی تاجروں کا اپنا رجحان ہے جو کہ ایران کی طرف مائل نہیں۔ ہماری کوشش ہے اور ہم پاکستان کیساتھ زیادہ سے زیادہ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ شاید بھارتیوں کی نسبت پاکستانی تاجر بہتر کاروباری نہیں۔ میں ایک عرصے سے لاہور کے ایرانی قونصل خانہ میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ اس دوران میں نے کئی مرتبہ لاہور چیمبر آف کامرس کے نمائندوں سے ملاقات کرکے انہیں دعوت دی کہ وہ ایرانی منڈیوں تک رسائی حاصل کریں، مگر مجھے مثبت جواب نہیں مل سکا۔ ایران پاکستانی تاجروں کیلئے چاول برآمد کرنے کی ایک بڑی منڈی ثابت ہوسکتا تھا، مگر ایرانی قونصل خانہ کی ترغیب کے باوجود پاکستانیوں کی طرف سے اس کاروباری موقع کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے آج بھارت کا چاول ایران میں اپنی طلب پیدا کرچکا ہے۔

سوال: ایران پاکستان کے توانائی بحران میں بھی تو اسکی مدد کرسکتا ہے۔؟
محمد حسین بنی اسدی: پاکستان ایک عرصہ سے توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ اس بحران کے حل میں ایران کسی نہ کسی حد تک پاکستان کی مدد کرسکتا ہے۔ اس وقت ایران یہ استعداد رکھتا ہے کہ پاکستان کو 3500 میگا واٹ تک بجلی فراہم کرسکے۔ اس سلسلے میں ایرانی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کیلئے پاکستان کی طرف سے گرمجوشی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایران، پاکستان گیس فراہمی معاہدہ کے تحت ایران نے اپنے علاقے میں دونوں ملکوں کی سرحد تک 940 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھا دی ہے، لیکن سرحد کے پار پاکستانی علاقوں میں ابھی تک اس سلسلے میں کام کا آغاز نہیں ہوسکا۔

سوال: پاک ایران ثقافتی تعلقات بھی بہت مضبوط ہیں، ایرانی فلمیں دنیا بھر میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں، کیا اس شعبہ میں پاک ایران تعاون کی کوئی گنجائش ہے۔؟
محمد حسین بنی اسدی: جی بالکل ہے، ہم نے پاکستان کے ممتاز فلمسازوں کیساتھ رابطے کئے، سید نور صاحب سے بھی بات ہوئی، انہوں نے بھی متعدد بار اس بات پر اتفاق کیا کہ پاک ایران مشترکہ فلمسازی ہونی چاہیے، اس سے پاکستانی فلم انڈسٹری بحران سے نکل آئے گی، لیکن بس یہ سب باتوں کی حد تک ہوتا ہے، عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا، ہمارا دروازہ تو کھلا ہے۔

سوال: اقتصادی پابندیوں کے خاتمے سے ایران کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔؟
محمد حسین بنی اسدی: پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران اس وقت معاشی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہے۔ ایران میں بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ ہم نے اپنی منڈیوں کے دروازے پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کیلئے کھول رکھے ہیں۔ ایران عالمی معیشت میں صرف درآمدی ہی نہیں بلکہ برآمدی منڈی کے طور پر کردار ادا کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

سوال: پابندیاں ہٹنے کے بعد ایران کو مستقبل کی اقتصادی طاقت دیکھ رہے ہیں۔؟
محمد حسین بنی اسدی: جی بالکل، ایران مستقبل کی معاشی قوت ہے۔ ایران کو اس وجہ سے بھی دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ ترقی پذیر ملکوں میں ایران واحد ایسا ملک ہے، جس کے انسانی وسائل ترکی کی طرح، سعودی عرب کی طرح خام تیل کے ذخائر، قدرتی گیس کی فراوانی روس کی طرح اور معدنی وسائل آسٹریلیا جیسے ہیں۔ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایرانی قیادت اپنے ملک میں صنعتی ڈھانچے کو قائم و دائم رکھنے میں کامیاب رہی۔ اس وقت ایران کا لوہے کی پیداوار میں دنیا کے پہلے 15 ملکوں، آٹو موبائل انڈسٹری میں بھی دنیا کے پہلے 15 ملکوں اور سیمنٹ کی پیداوار میں دنیا کے پہلے 5 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سائنس کے کئی شعبوں میں بھی ایران کی ترقی فقید المثال سمجھی جا رہی ہے۔ سائنسی ترقی میں مشرق وسطٰی کے ممالک میں ایران کا کوئی ثانی نہیں۔ ایران سائنٹفک کاغذ کی پیداوار میں دنیا کا 17 واں بڑا ملک ہے۔ اس کی یہ صلاحیت ترکی اور اسرائیل سے بھی بہتر ہے۔ بہترین سائنسدان اور انجینئر تیار کرنیوالی ایران کی شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اور تہران یونیورسٹی کا شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس طرح کے انسانی، صنعتی، معدنی اور تمدنی وسائل کا حامل ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے سرمایہ کار ایران کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdcjiie8ouqe8oz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ