افغانستان میں امریکا امن منصوبے کو کورونا وائرس کی وجہ سے خطرات لاحق
طالبان اور افغان حکومت کے قیدی تبادلہ ہونے سے قبل ہی تحویل میں مر گئے تو افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی کوششیں ناکام ہوجائیں گی
شیئرینگ :
افغانستان میں امریکا کے امن منصوبے کو کورونا وائرس کی وجہ سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق معلومات رکھنے والے 4 ذرائع نے بتایا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے قیدی تبادلہ ہونے سے قبل ہی تحویل میں مر گئے تو افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔
دو ذرائع نے بتایا کہ موسم بہار میں تشدد کا وقت قریب آتے ہی امریکی امن منصوبے کو اپنی سمت پر رکھنا بہت ضروری ہوگیا ہے اور خطرہ ہے کہ تشدد بڑھتے ہی کورونا وائرس کو روکنا ناممکن ہوجائے گا۔
جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے دیگر امریکی سفیر کہیں بھی سفر کرنے سے قاصر ہیں وہیں امریکا کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد پچھلے ہفتے دوحہ روانہ ہوئے جہاں طالبان کا دفتر ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ اگر دونوں اطراف کے بہت سارے قیدی اس مرض کا شکار ہوجاتے ہیں یا اس کی وجہ سے وہ جیل میں ہی مر جاتے ہیں تو یہ ایک انسانی ہمدردی کا مسئلہ ہوگا اور اس سے افغانوں کے درمیان باہمی گفت و شنید اور زیادہ مشکل ہوجائے گی‘۔
ایک مغربی سفیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ان کا خطے میں آنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ امریکی صدر کسی بھی حال ہی اس معاہدے کو ختم ہوتا نہیں دیکھ سکتے‘۔
انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتکاروں کے لیے پیغامات کی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے آمنے سامنے ملاقاتیں کرنا بہت ضروری تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے معاملے پر رائے کے لیے درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کی خطے سے انخلا کے لیے معاہدہ ہوا تھا جس کے پہلے مرحلے میں افغان حکومت کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کو افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو 10 مارچ تک رہا کیا جانا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی جو اس معاہدے کا حصہ نہیں تھے، کی جانب سے قیدیوں کو رہا نہ کیے جانے پر طالبان نے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے بڑھا دیے تھے۔
اشرف غنی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا تھا اور مرحلہ وار 1500 قیدیوں کی رہائی کا آغاز کیا تھا جبکہ طالبان نے اب تک 40 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
دریں اثنا کورونا وائرس پھیل گیا اور افغانستان میں تقریباً ایک ہزار کیسز بشمول کابل میں صدارتی محل کے 20 ملازمین میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔
سفارت کار اور دیگر دو ماہرین نے معاملہ حساس ہونے پر نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ قیدیوں کا تبادلہ کورونا وائرس کی وجہ سے رکاوٹ آئے گی کیونکہ اس کے جیلوں میں پھیلنے سے دونوں اطراف تلخیاں پیدا ہوں گی۔
سابق سینیئر افغان حکام کا کہنا تھا کہ ’زلمے خلیل زاد کا دوحہ میں طالبان مذاکرات کاروں سے ملاقات کا اصل مقصد تشدد میں کمی اور قیدیوں کے تبادلے کو تیز کرنا تھا‘۔
زلمی خلیل زاد نے افغان حکام کو بتایا کہ وہ کورونا وائرس کی وجہ سے امریکا کی قیادت میں امن مرحلے میں رکاوٹ سے ’بے حد تشویش کا شکار‘ ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی ممالک نے وبا کی وجہ سے قیدیوں کو رہا کیا ہے اور یہ اشرف غنی اور طالبان کے لیے اپنی ساکھ بچانے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
امریکا اور افغان حکام سے نمٹنے والے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ ’اس سے کابل کو انسانی بنیادوں پر طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا موقع ملے گا تاکہ وہ یہ دکھا سکیں کہ ’اشرف غنی طالبان کے مطالبے کے آگے جھکا نہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان قیدی ہوسکتا ہے کہ مرنا شروع ہوجائیں اور حکومت چاہے گی کہ وہ رہا ہوجائیں اور ان کسٹڈی میں ان کی ہلاکت کا بوجھ ان کے سر نہ آئے‘۔
مغربی سفارتکار کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد اور مائیک پومپیو دونوں اس بات سے پریشان ہیں کہ طالبان اپنے روایتی بہار کے موسم کے حملوں کا آغاز نہ کردیں۔
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا مشکل ترین ہوجائے گا۔