افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک اسپتال پر بھی دہشتگردانہ حملہ ہوا ہے۔ افغانستان کے سرکاری ذرائع کی رپورٹ کے مطابق ایک مسلح حملہ آور سو بیڈ والے ایک بڑے اسپتال میں گھس گیا جس کے بعد دھماکے اور فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ اسپتال مغربی کابل کے شہید مزاری روڈ پر واقع ہے۔
شیئرینگ :
افغانستان ایک بار پھر دہشت گردانہ حملوں اور خونریز جھڑپوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ اس درمیان طالبان نے اپنے حملے وسیع تر کرنے کی دھمکی بھی دی۔
افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں مارے جانے والے پولیس کمانڈر کی آخری رسومات پر بھی دہشت گردانہ حملہ کیا گیا۔ اس دہشتگردانہ حملے میں دسیوں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔ مشرقی افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے گورنر ہاؤس کے ترجمان عطاء اللہ خوگیانی نے بتایا ہے کہ یہ حملہ منگل کو ننگرہار کے کوز کنر ضلع میں کیا گیا ہے۔خوگیانی نے کہا کہ اس حملے میں دسیوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں تاہم ابھی تک پوری طرح صحیح اور دقیق تعداد کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
آخری اطلاع ملنے تک کسی بھی شخص یا گروہ نے اس دہشتگردانہ حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک اسپتال پر بھی دہشتگردانہ حملہ ہوا ہے۔ افغانستان کے سرکاری ذرائع کی رپورٹ کے مطابق ایک مسلح حملہ آور سو بیڈ والے ایک بڑے اسپتال میں گھس گیا جس کے بعد دھماکے اور فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ اسپتال مغربی کابل کے شہید مزاری روڈ پر واقع ہے۔
درایں اثنا افغانستان کی آوا پریس نیوز ایجنسی نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ مشرقی افغانستان کے صوبہ لغمان کے ضلع علی شینگ میں افغان فوجیوں کی چوکیوں پر طالبان کے حملے میں ستائیس افغان فوجی ہلاک اور نو زخمی ہوگئے۔ آوا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے پولیس ترجمان شاہ محمد آرین نے بھی منگل کو اعلان کیا ہے کہ خیرکوت اور وازہ خواہ نامی اضلاع میں طالبان گروہ کے حملے میں چار عام شہری جاں بحق اور دو زخمی ہو گئے۔
ادھر افغانستان کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ صوبہ قندوز کے بعض علاقوں میں افغان فوج اور طالبان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں چار طالبان ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔ صوبہ بلخ میں افغان فوجیوں اور طالبان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں بھی دس طالبان ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے ہیں۔
افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے طالبان کے حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے حالیہ حملوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گروہ جنگ اور افغان عوام کا قتل عام جاری رکھنے پر اڑا ہوا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ اس حملے میں چوبیس افغان فوجی ہلاک اور تیس زخمی ہوئے ہیں جبکہ تیرہ ٹینکوں کو تباہ کیا گیا ہے۔
طالبان کے ترجمان نے ای بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان میں طالبان کے حملوں کا سلسلہ تیز ہونے کے بارے میں کہا کہ طالبان ابھی اپنی صرف چالیس فیصد فوجی طاقت استعمال کر رہے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے انتباہ دیا کہ اگر کابل حکومت معاہدے کے مطابق پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کرے گی تو حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
قابل ذکر ہے کہ افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان فیصل اس سے قبل ایک پریس کانفرنس میں طالبان قیدیوں کو آزاد کرنے کا عمل روکنے کی خبر دے چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جب تک طالبان دو سو افغان فوجیوں کو رہا کرنے کے وعدے کو پورا نہیں کریں گے اس وقت تک طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی رکا رہے گا۔