طالبان کا مڈل اور ہائی سکول لڑکوں کی تعلیم دوبارہ شروع کرنا کا حکم
’جس طرح پہلے پرائمری سے چھٹی جماعت تک سکولوں اور مدارس میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، اب اسی سلسلے کی کڑی میں ساتویں اور اس سے اعلی جماعتوں کے لڑکوں کے سکول اپنا تعلیمی سفر شروع کریں۔ طلبہ اور اساتذہ سکولوں میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔‘
شیئرینگ :
افغانستان کی وزارت تعلیم کی جانب سے جمعے کو ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں ہائی سکولوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ مڈل اور ہائی سکول لڑکوں کی تعلیم دوبارہ شروع کریں تاہم اعلامیے میں لڑکیوں کے سکول جانے کے حوالے سے کچھ نہ کہنے پر عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پریشان ہیں۔
پشتو اور دری زبان میں جاری اس اعلامیے میں لکھا گیا ہے کہ ’جس طرح پہلے پرائمری سے چھٹی جماعت تک سکولوں اور مدارس میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، اب اسی سلسلے کی کڑی میں ساتویں اور اس سے اعلی جماعتوں کے لڑکوں کے سکول اپنا تعلیمی سفر شروع کریں۔ طلبہ اور اساتذہ سکولوں میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔‘
تاہم اس اعلامیے میں خواتین اساتذہ اور لڑکیوں کی کلاسوں کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے جواب میں بتایا کہ وہ اس کو چیک کرکے جواب دیں گے تاہم اس رپورٹ کے لکھنے تک ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
طالبان نے اس سے پہلے کئی بار یہ بتایا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں ہوگ لیکن خواتین باپردہ ہو گی۔ افغانستان کی کچھ نجی یونیورسٹیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ پھر سے شروع ہو چکا ہے تاہم لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان میں پردہ لگایا گیا ہے۔
وزارت تعلیم کی جانب سے ہائی سکول میں پڑھنے والے لڑکیوں کے حوالے سے تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع نہ کرنے کے حوالے سے کچھ نہ کہنے پر لوگ حیران ہے۔ تاہم افغانستان کے کچھ نجی ہائی سکولوں میں ساتویں سے بارھویں تک لڑکیوں کی تعلیم کا سلسہ جاری ہے۔
اس حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو نے افغانستان میں ایک نجی سکول نیٹ ورک کے اہلکار کے سے بات کی ہے۔ اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغانستان میں ان کے نیٹ ورک کے دو درجن سے زائد سکول ہیں جس میں پرائمری سے لے کر ہائی سکول تک کی شاخیں موجود ہے لیکن لڑکوں اور لڑکیوں کی کیمپس الگ الگ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے مزار شریف اور شبرغان میں ان کے نیٹ ورک کے گرلز ہائی سکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے اور لڑکیاں باقاعدہ سکول آتی ہیں اور کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہے لیکن کچھ صوبوں میں ابھی تک ہمارے گرلز کیمپس بند ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کابل سمیت مختلف صوبوں میں ہمارے گرلز کیمپس بند ہیں اور اس سلسلے میں اب تک طالبان کی جانب سے کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں ہوا ہے۔ ہمارے گرلز سکولوں میں تمام اساتذہ خواتین ہیں جبکہ لڑکوں کے سکولوں میں اساتذہ مرد ہیں۔‘
ہائی سکولز کے علاوہ افغانستا ن کے سرکاری اور نجی سکولوں میں پرائمری سے لے کر چھٹی جماعت تک تعلیم کا سلسلہ سات ستمبر سے شروع ہو چکا ہے۔
چھ ستمبر کو وزارت تعلیم کی جانب سے اس وقت جاری کیے جانے والے اعلامیے میں لکھا گیا ہے کہ ’پہلی جماعت سے چھٹی تک تمام سکول تعلیمی سلسلہ شروع کریں اور سکولوں کے منتظین والدین کو اس فیصلے کے حوالے سے آگاہ کریں۔ اس اعلامیے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے حوالے سے کوئی ذکر موجود نہیں تھا۔‘
لڑکیوں کی ہائی سکولوں میں تعلیمی سلسلہ شروع نہ کرنے پر اقوام متحدہ کے یونیسیف نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یونیسیف کی جانب سے جاری اعلامیے میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ خوش آئند بات ہے کہ کرونا وبا کی خطرے کے پیش نظر ایک مہینے سے بند سکولز دوبارہ آج سے کھل رہے ہیں لیکن یونیسیف کو لڑکیوں کی سکول دوبارہ نہ کھلنے پر تشویش ہے۔‘
اعلامیے میں لکھا گیا کہ ’لڑکیوں کو کسی بھی طور پر تعلیم سے محروم نہیں ررکھنا چاہیے۔ بچیوں سمیت بڑے عمر کے لڑکیوں کے تعلیم کا سلسلہ بغیر کسی تاخیر کے دوبارہ جاری رکھنا چاہیے ۔‘
یونیسیف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریتا فور نے اعلامیے میں لکھا ہے کہ ’افغانستان میں موجودہ صورت حال سے پہلے بھی افغانستان میں 40لاکھ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں اور روزانہ یہ لڑکیاں جب سکول مس کرتی ہے ، تو یہ اصل میں ان لڑکیوں اور ان کے خاندان والوں سے ایک اچھا موقع ضائع ہوتا ہے۔‘
یونیسیف کے مطابق ’ گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان کے تعلیمی شعبے میں بہت بہتری آئی ہے ۔ سکولوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی ہے اور سکولوں میں داخل بچوں کی تعداد دس لاکھ سے بڑھ کر تقریبا 90 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔‘