شیعوں کو گستاخ صحابہ قرار دینے کا قانون پاکستانی قومی اسمبلی سے منظور
یہ قانون دو دھاری تلوار ہے ایک طرف اس کی مخالفت کو صحابہ وغیرہ کی مخالفت سے تعبیر کیا جائے گا دوسری طرف اس قانون پر خاموشی اور اسی حالت میں اس کے منظور ہونے سے سب سے زیادہ شیعہ مکتب فکر کے شہری متاثر ہوں گے۔
شیئرینگ :
جاتے جاتے پی ڈی ایم نے شیعوں پر ایک اور بم بھی گرا دیا، توہین رسالت اور صحابہ کے خلاف فوجداری ترمیمی بل 2021ء کی منظوری براہ راست شیعہ مکتب فکر کونشانہ بنانے کی مذموم کوشش، دشمنان اہل بیت رسول ؑ آل امیہ ، بنو عباس سے تعلق رکھنے والے بدکاروں کو صحابہ کی فہرست میں شامل کرکے قابل احترام قرار دیئے جانے کی سازش کامیاب ہوگئی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ دوران اجلاس جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے صحابہ کرامؓ و اہلبیت عظامؓ و امہات المومنینؓ کی توہین روکنے سے متعلق بل 2022ء پیش کیا جسے ارکان نے متفقہ طور پر منظور کیا۔نئے قانون کے تحت صحابہؓ و اہلبیتؓ عظام اور امہات المومنینؓ کی توہین پر کم سے کم سزا 10 سال جبکہ زیادہ سے زیادہ عمر قید ہوگی جب کہ پرانے قانون میں یہ سزا 3 سال تک تھی۔یہ قانون 2019 سے زیر پراسس تھا۔ جولائی 2021 میں داخلہ امور کی قومی اسمبلی میں کمیٹی نے اسے منظور کیا تھا اور اب قومی اسمبلی نے پاس کیا ہے۔ اسے ابھی سینٹ اور صدر کے ہاں جانا ہے قانون بننے سے پہلے۔
یہ قانون دو دھاری تلوار ہے ایک طرف اس کی مخالفت کو صحابہ وغیرہ کی مخالفت سے تعبیر کیا جائے گا دوسری طرف اس قانون پر خاموشی اور اسی حالت میں اس کے منظور ہونے سے سب سے زیادہ شیعہ مکتب فکر کے شہری متاثر ہوں گے۔ کیونکہ توہین کے قانون کے ذریعے تشیع کو کاؤنٹر کرنے کی دشمن مکمل ورکنگ کر چکا ہے۔ اس کی جگہ جگہ ٹیمیں ہیں جو توہین کے موضوع پر شہریوں پر پرچےدرج کرواتے ہیں اور یہ کوئی ایک آدھ رات میں نہیں ہوا بلکہ 90 کی دھائی سے وہ اس پر ورکنگ کررہے ہیں۔اس قانون کو تکنیکی بنیادوں پر صرف متعلقہ اداروں اور افراد کے درمیان اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مثلا اس قانون میں صحابی کی تعریف مجھول ہے اسے واضح کروانے کی ضرورت ہے۔ فقہ حنفی مین توہین صحابہ حتی توہین رسالت پر بھی توبہ کی نہاد کو قبول کیا گیا ہے جبکہ پاکستانی قانون نے ان جرائم میں توبہ و ندامت کی گنجائش نہیں رکھی اسے شامل کروانا چاہیے۔
نیز توہین اور تنقید میں فرق کو قانون میں ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اگر یہ قانون اسی شکل میں پاس ہوگیا تو تشیع کا ہر تصور آہستہ آہستہ اس ملک میں جرم بنتا جائے اور وہ بھی سنگین جرم جو قانون کی نظر میں بھی ناقابل ضمانت اور عمر قید تک کی سزا کا حامل ہوگا ۔
مزید ان قوانین کے بارے خصوصا اور ہر قانون کے بارے عمومی طور پر اپنی کمیونٹی کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان قوانین کو اپنے دفاع کے لئے بھی استعمال میں لایا جائے کیونکہ انہی قوانیں میں یہ ظرفیت موجود ہے۔
ناموس صحابہ بل میں مندرجہ ذیل چیزیں واضح نہیں ہے۔
1:قرآن وسنت کی روشنی میں صحابہ کی تعریف کیا ہے؟
2: ہر جرم اور غلطی کےلئے ندامت اور توبہ کا راستہ دین مبین اسلام نے دیاہے اس بل میں وضاحت نہیں ہے؟
3۔ اس بل میں یہ بھی واضح نہیں کہ توہین کے زمرے میں کونسی شئی آتی ہے۔ کیا صحابہ کے کردار پر تاریخ کی روشنی میں تنقید بھی توہین ہے یا گالم گلوچ اور لعن و طعن؟؟؟؟
4۔ آئیں پاکستان میں یہ بات بلکل واضح ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کیخلاف نہیں بنے گا۔ تو کیا اس قانون کی پاس کرنے کیلئے شیعہ علماء کو بھی اعتماد میں لیا ہے، یا اسلامی نظریاتی کونسل میں اس قانون پر بحث ہوا ہے۔
3: یہ بل کھچہ متشدد،متعصب اور دہشت گرد طبقے اپنے انتقام کےلئے استعمال کرسکتے ہیں اس حوالہ سے بھی ایک شق ہونی چاہئے کہ کوئی شخص اسے اپنے ذاتی مفاد کےلئے استعمال نہ کریں۔
نوٹ۔۔۔۔ قانون کے خدوخال سے بلکل واضح ہے کہ یہ قانوں فقط شیعوں کو کاونٹر کرنے کیلئے بنایا گیا۔ جس پر بہت سارے شیعہ MNA,s بھی دستخط کرچکے ہیں۔