حکومت فرانس کی شدید مخالفت کے باوجود ہزاروں افراد ایک بار پھر پیرس کی سڑکوں پر اتر آئے
حکومت فرانس کی شدید مخالفت کے باوجود ہزاروں افراد ایک بار پھر پیرس کی سڑکوں پر اتر آئے اور سن 2016 میں پولیس کی بربریت کا نشانہ بنے والے 24 سالہ سیاہ فام نوجوان کی یاد میں ہونے والے سالانہ احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا۔
شیئرینگ :
فرانس میں حکومت کی جانب سے ہر قسم کے مظاہروں پرپابندی کے باوجود ہزاروں افراد نے پیرس میں مظاہرے کیے ہیں۔
حکومت فرانس کی شدید مخالفت کے باوجود ہزاروں افراد ایک بار پھر پیرس کی سڑکوں پر اتر آئے اور سن 2016 میں پولیس کی بربریت کا نشانہ بنے والے 24 سالہ سیاہ فام نوجوان کی یاد میں ہونے والے سالانہ احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا۔
معروف فرانسیسی اخبار "لے فیگارو" نے لمحہ بہ لمحہ اس واقعہ کی کوریج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مظاہرے پیرس کے ریپبلک اسکوائر میں مقامی وقت کے مطابق سہ پہر 3 بجے شروع ہوئے۔ مظاہرے میں فرانس کے ایک بڑے ٹریڈ یونین گروپ سینڈیکا سولڈیریٹز کے ارکان بھی شریک ہوئے۔
ٹریڈیونین رہنما موریل گلبرٹ نے صدر میکرون کی حکومت پر عوام کی آواز دبانے کے لیے طاقت کے استعمال کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مسلسل پولیس کے تشدد آمیز رویئے اور نسل پرستانہ رجحان سے انکار اور آزادی اظہار رائے کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ گزشتہ دنوں پولیس کے ہاتھوں ایک اور سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کے بعد فرانس میں پر تشدد مظاہرے کیے جاتے رہے ہیں۔
فرانسیسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرائے جانے کے باعث 17 سالہ نوجوان کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی بدامنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
حکومت فرانس نے اس رجحان کے تحت احتجاج کرنے میں شریک ہزاروں نوجوانوں کو عدالتوں کے ذریعے تیزی کے ساتھ سزائيں سنا کر جیل بھیج دیا ہے۔